شام (اصل میڈیا ڈیسک) شام میں قانون سازوں نے آیندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے اپنے ترجیحی امیدوارکے نام کی منظوری دے دی ہے۔صدارتی امیدواروں کی فہرست میں سات خواتین سمیت 51 امیدوار شامل ہیں۔
صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے کسی امیدوارکے نام کی پارلیمان کے 250 ارکان میں سے کم سے کم 35 ارکان کی طرف سے منظوری ضروری ہے۔پارلیمان میں صدر بشارالاسد کی جماعت بعث کو بالادستی حاصل ہے۔
شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا کے مطابق قانون سازوں نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے ترجیحی امیدوار کی توثیق کردی ہے اور ووٹ باکس سربہ مہر کردیا ہے۔وہ صرف ایک امیدوار ہی کے نام کی توثیق کرسکتے تھے۔
اب منظورشدہ ناموں کو ملک کی اعلیٰ دستوری عدالت کو بھیجا جائے گا۔وہ پھر ان کا جائزہ لینے کے بعد اہل امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردے گی۔
شام میں 2011ء میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد 26 مئی کو دوسری مرتبہ صدارتی انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔یہ توقع کی جارہی ہے کہ ان انتخابات میں بھی بشارالاسد چوتھی مرتبہ ملک کے صدر منتخب ہوجائیں گے۔شام میں گذشتہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے جاری لڑائی کے دوران میں 388000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔
سانا کے مطابق دمشق حکومت نے اپنے اتحادی ممالک روس ، ایران ، چین ، وینزویلا اور کیوبا سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کو صدارتی انتخابات کے عمل کے مشاہدے کے لیے بہ طور مبصر ملک میں آنے کی دعوت دی ہے۔
صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی فہرست میں بشارالاسد ہی سب سے نمایاں ہیں۔وہ گذشتہ 21 سال سے برسراقتدار چلے آرہے ہیں۔ان کے مقابلے میں دوسرے امیدوار غیرمعروف ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ان کے اقتدار کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کا حامل نہیں ہے۔
شام کے انتخابی قانون کے تحت صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ گذشتہ ایک عشرے کے دوران میں مسلسل شام میں مقیم رہا ہو۔اس قانون کے ذریعے جلاوطن حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو انتخابی عمل ہی سے باہر کردیا ہے۔
بشارالاسد نے والد حافظ الاسد کی وفات کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ وہ پہلی مرتبہ 2000ء میں ایک ریفرینڈم میں ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔وہ 2007ء میں دوبارہ ریفرینڈم میں صدر بنے تھے۔2014ء میں شام میں پہلی مرتبہ کثیرامیدواروں کی بنیاد پر صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔البتہ ان انتخابات میں 24 امیدواروں میں سے بشارالاسد سمیت صرف تین کو حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔