بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی حکومت نے کووڈ انیس کی وبا سے متعلق مشاورت کے لیے سائنس دانوں کی جو ٹیم تشکیل دی تھی، اس نے دو ماہ قبل ہی کورونا وائرس کی ایک انتہائی شدید لہر کے بارے میں خبردار کر دیا تھا۔
بھارتی حکومت نے کورونا وائرس سے نمٹنے اور اس کے چیلنجز سے متعلق مزید آگہی کے لیے سائنس دانوں اور طبی ماہرین پر مشتمل جو فورم تشکیل دیا تھا، اس نے اس سال فروری کے اواخر میں ہی تیزی سے تغیر پذیر اس وائرس کی ایک تبدیل شدہ اور زیادہ خطرناک شکل کے پھیلاؤ کے بارے میں حکومت کو متنبہ کر دیا تھا۔
اس حکومتی کمیٹی میں شامل چار سائنس دانوں نے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ اس ’آگہی کے باوجود حکومت نے اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نا تو بڑے پیمانے پر انتظامات کیے اور نا ہی پابندیاں‘ عائد کی گئیں۔
ان ماہرین کے مطابق ایک ایسے وقت پر جب اس وبا کی روک تھام کے بندوبست کی سخت ضرورت تھی، لاکھوں افراد بغیر ماسک پہنے ہوئے مذہبی اجتماعات یا پھر ان سیاسی ریلیوں میں شریک ہوتے رہے، جن کا اہتمام حکمران بی جے پی یا پھر اپوزیشن جماعتیں کر رہی تھیں۔ ’’اسی دوران مودی حکومت کے نئے زرعی قوانین کے خلاف دہلی اور اس کے قرب و جوار میں ہزاروں کسانوں کا احتجاج بھی جاری رہا۔‘‘
اس سرکاری فورم کے ایک رکن اجے پریدا کا کہنا تھا کہ اس کمیٹی میں شامل محققین نے تیزی سے پھیلنے والے کورنا وائرس کی قسم ’بی۔1۔617‘ کو فروری میں ہی دریافت کر لیا تھا، جسے بھارت میں اس وائرس کے ’ویریئنٹ‘ یا اس کی تبدیل شدہ شکل کا نام دیا جاتا ہے۔
بھارتی حزب اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے ایک بار پھر حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے، ”اس وقت کسی بھی حکومت کی سب سے پہلی ترجیح لوگوں کی جانیں بچانا ہونا چاہیے۔‘‘
انہوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا، ’’اب وقت آ گیا ہے کہ مرکز اور ریاستی حکومتیں بیدار ہوں اور اپنی ذمے داریاں پورا کریں۔ مہاجر مزدوروں کی نقل مکانی بند ہونا چاہیے اور اس بحران کے ختم ہونے تک انہیں فی کس کم از کم چھ ہزار روپے ماہانہ ادا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
دو روز قبل بھی سونیا گاندھی نے اپنے ایک انٹرویو میں مودی حکومت پر اس وجہ سے تنقید کی تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ’ماہرین کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے‘ دو ماہ قبل ہی اس وائرس پر فتح پا لینے کا اعلان کر دیا تھا۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بھارت اس وقت کورونا وائرس کے شدید بحران سے دو چار ہے۔ گزشتہ روز چار لاکھ سے بھی زیادہ نئے کورونا کیسز سامنے آئے جب کہ انہی چوبیس گھنٹوں میں مزید ساڑھے تین ہزار سے بھی زیادہ مریض ہلاک بھی ہو گئے۔
تین ہفتے قبل جب دوسری لہر شروع ہوئی تھی تو پہلی بار ایک دن میں ایک لاکھ کیسز سامنے آنا شروع ہوئے تھے۔ پھر یہ یومیہ تعداد دو لاکھ تک پہنچ گئی جبکہ گزشتہ نو روز سے ہر دن تین لاکھ سے بھی زیادہ کیسز سامنے آ رہے تھے۔ آج ہفتے کے روز یہ تعداد چار لاکھ دو ہزار کے قریب پہنچ گئی۔ ماہرین کے مطابق بھارت میں آنے والے دن اس سے بھی کہیں زیادہ برے ہو سکتے ہیں۔
بھارت میں اس وائرس کے باعث اب تک مجموعی طور پر ایک کروڑ 91 لاکھ سے بھی زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں اور تقریباﹰ سوا دو لاکھ افراد کا انتقال بھی ہو چکا ہے۔
بھارتی حکومت نے یکم مئی سے اٹھارہ برس سے زیادہ عمر کے تمام افراد کو کورونا وائرس کے خلاف ویکسین لگانے کی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم کئی ریاستوں میں ویکسین کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد ملتوی کر دیا گیا ہے۔
دہلی، مہاراشٹر، تامل ناڈو، مغربی بنگال، کیرالا، راجستھان اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کووڈ انیس کے ٹیکے بہت کم ہیں، اس لیے اس منصوبے پر عمل کرنا مشکل ہے۔ اس کے برعکس مرکزی حکومت کا اصرار اس بات پر ہے کہ ان ریاستوں کے پاس اتنی مقدار میں ویکسین موجود ہے، کہ یہ مہم شروع کی جا سکے۔
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی کورونا وائرس کی صورت حال گزشتہ برس کے مقابلے میں اس برس کافی تشویش ناک ہے۔ حکام کے مطابق گزشتہ روز اس ریاست میں دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہو گئے جبکہ نئی انفیکشنز کی شرح میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ان حالات سے نمٹنے کے لیے حکام نے بدھ کو دو روز کے لیے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ اس دوران رمضان کے مہینے میں بیشتر مساجد میں باجماعت نمازیں ادا نہیں کی جا رہیں۔
جموں کشمیر میں مجموعی طور پر تقریباﹰ پونے دو لاکھ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے اس وقت تقریباﹰ ساڑھے اٹھائس ہزار کیسز ’ایکٹیو‘ ہیں۔ اب تک مجموعی طور پر وہاں دو ہزار تین سو آٹھ افراد کا انتقال ہو چکا ہے۔
کورونا وائرس کی اسی پھیلتی ہوئی انفیکشن کی وجہ سے امریکا اور آسٹریلیا نے اپنے شہریون کے بھارت کے سفر پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی کے تحت نا تو کسی کو بھارت سے ان ممالک میں جانے اور نا ہی وہاں سے بھارت کا سفر کرنے کی اجازت ہے۔ آسٹریلیا نے تو اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے پانچ سال کی سزائے قید کا اعلان بھی کیا ہے۔
امریکی وزير خارجہ نے اس پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وبا کی وجہ سے یہ سخت اقدامات کرنا پڑ رہے ہیں اور تا حکم ثانی چار مئی سے بھارت سے آمد و رفت پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ تاہم امریکا نے صحافیوں، طلبا اور بعض دیگر مخصوص افراد کو سفری رعایت دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔