بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتیہ جنتا پارٹی کی اپنی پوری قوت لگا دینے کے باوجود مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں ممتا بنرجی کی کامیابی کو ہندو قوم پرست جماعت اور بالخصوص وزیر اعظم مودی کے لیے بہت بڑا دھچکا قرار دیا جارہا ہے۔
چار ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام ایک علاقے کے لیے ہونے والے اسمبلی انتخابات میں نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی، اسے حسب توقع صرف آسام میں کامیابی پر صبر کرنا پڑا۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی قیادت میں ترنمول کانگریس کی یہ مسلسل تیسری فتح ہے،کیرالہ میں حکمراں بائیں بازو کا محاذ دوسری مرتبہ کامیاب ہوا، تمل ناڈو میں کانگریس کی اتحاد والی ڈی ایم کے پارٹی کو کامیابی ملی جبکہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ پڈوچیری میں کانگریس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور این آر سی اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔
یوں تو تمام اسمبلی انتخابات اہمیت کے حامل تھے تاہم سب کی نگاہیں مغربی بنگال پر تھیں کیونکہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی نے وہاں اپنی پوری طاقت لگا دی تھی۔ پورے ملک میں کورونا کے بحران سے پیدا شدہ صورت حال کے باوجود خود وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے درجنوں ریلیوں سے خطاب کیا۔ ان ریلیوں میں لاکھوں افراد کسی احتیاط کے بغیر شریک ہوئے۔ بی جے پی نے اپنے درجنوں مرکزی وزراء اور پارٹی کے اعلی عہدیداروں کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کو انتخابی مہم میں لگادیا تھا۔
مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے بھارتی صحافی گوتم ہورے نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ممتا بنرجی کی کامیابی کا بھارت کی قومی سیاست پر اثر پڑنا یقینی ہے۔گوتم ہورے کا کہنا تھا، ”اس وقت مودی کے خلاف کوئی بھی بڑا لیڈر نہیں ہے، یہ جگہ خالی ہے اور ممتا بنرجی اسے پر کرسکتی ہیں کیونکہ راہول گاندھی کی بات کوئی سنتا نہیں ہے۔ وہ اپنی پارٹی کو کسی ریاست میں کامیابی دلانے میں ناکام رہے ہیں۔ شرد پوار جیسے زیرک سیاست داں اب سیاست سے تقریبا ًریٹائر ہونے والے ہیں، سابق وزیراعظم دیوے گوڑا کا بھی یہی حال ہے۔ مہارا شٹر کے اودھو ٹھاکرے نئے وزیر اعلی ہیں اور ان کے پاس سیاست کا کوئی زیادہ تجربہ نہیں ہے۔ بقیہ وزرائے اعلی یا سابق وزرائے اعلی بھی زیادہ موثر نہیں ہیں جبکہ ممتا بنرجی نے نریندر مودی، امیت شاہ اور بی جے پی کا تنہا مقابلہ کر کے خود کو ایک مضبوط لیڈر کے طور پر ثابت کر دیا ہے۔”
ووٹروں کو مذہبی بنیاد پر جس طرح صف بندی کرنے کی کوشش کی گئی اس کی مثال کبھی پہلے دیکھنے کو نہیں ملی۔
گوتم ہورے نے بی جے پی کے خلاف ترنمول کانگریس کی کامیابی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ممتا بنرجی کو تقریباً پچاس فیصد ووٹ ملے۔ ریاست کے تیس فیصد مسلم ووٹروں کی تقریباً مکمل اکثریت نے انہیں ووٹ دیا کیونکہ انہیں خوف تھا کہ اگر ہندو قوم پرست جماعت اقتدار میں آتی ہے تو ان کے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں گے۔ خواتین نے بھی ممتا کو کافی سپورٹ کیا کیونکہ ایک تو وہ خود بھی خاتون ہیں، دوسری انہوں نے خواتین کے لیے بہت ساری بہبودی اسکیمیں چلا رکھی ہیں، تیسری وزیر اعظم مودی نے ممتا کے خلاف جس طرح طنزیہ انداز اپنایا اس کا اچھا پیغام نہیں گیا۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کی بھی بہت بڑی تعداد نے ممتا کو ووٹ دیا۔
گوتم ہورے کا مزید کہنا تھا کہ کووڈ سے نمٹنے کے لیے ترنمول کانگریس حکومت نے جس طرح کے اقدامات کیے ہیں، ووٹروں پر اس کا بھی اچھا تاثر گیا اور ممتا بنرجی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہیں کہ وزیراعظم مودی اور بی جے پی کو عوام کی زندگی سے نہیں بلکہ صرف الیکشن سے دلچسپی ہے۔
ممتابنرجی نے کامیابی کے بعد مختصر تقریر میں کہا کہ یہ نہ صرف مغربی بنگال بلکہ پورے بھارت کے عوام کی جیت ہے۔ ”عوام نے ملک کو بچا لیا۔”
ممتا بنرجی خود اپنی سیٹ نہیں جیت سکیں۔ وہ اپنے سابق دیرینہ رفیق اور پارٹی کے سابق سینئر رہنما شوبھیندو ادھیکاری سے نندی گرام حلقہ میں تقریباً 1900ووٹو ں سے ہار گئیں۔ لیکن بھارتی آئین کے مطابق یہ ناکامی ان کے دوبارہ وزیر اعلی بننے کی راہ میں حائل نہیں ہوگی۔
شوبھیندو ادھیکاری ترنمول چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کے بعد ترنمول کانگریس کے چار ممبران پارلیمان بھی بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی تھی لیکن ان میں سے کوئی بھی اس الیکشن میں کامیاب نہیں ہوا۔
مسلمانوں کو خوف تھا کہ اگر ہندو قوم پرست جماعت اقتدار میں آتی ہے تو ان کے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں گے۔
چاروں ریاستوں اور بالخصوص مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے دوران ووٹروں کو مذہبی بنیاد پر جس طرح صف بندی کرنے کی کوشش کی گئی اس کی مثال کبھی پہلے دیکھنے کو نہیں ملی۔
سینیئر صحافی گوتم ہورے کہتے ہیں، ”مغربی بنگال میں میں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ پورا الیکشن مذہبی بنیاد پر پولارائزڈ تھا۔ یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ مذہب کے بجائے معیار زندگی، صحت، ملازمت اور مہنگائی جیسے امور پر بات ہونی چاہیے۔”
ان انتخابات میں بھارتی الیکشن کمیشن کے کردار پربھی سوالات اٹھائے گئے۔ اپوزیشن جماعتوں اور متعدد تجزیہ کاروں نے الیکشن کمیشن پر مودی حکومت کے آلہ کار کے طور پر کام کرنے کے الزامات بھی عائد کیے۔