ایک وقت تھا جب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلی ہوتے تھے تو وہ کھڑے کھڑے سرکاری افسران کو معطل یاتبدیل کردیا کرتے تھے بلکہ فیصل آباد میں تو انہوں نے ایک آفیسر کو ہتھکڑیاں بھی لگوا دی تھی یہ ہماری بیوروکریسی کا رویہ ہوتا ہے جو انہیں اس مقام پر لاکھڑا کرتا ہے کہنے کو تو یہ عوام کے نوکر ہوتے ہیں مگر اصل میں عوام پر یہی حکمرانی کرتے ہیں ہمارے تھانوں کا نظام دیکھ لیں جہاں شریف شہریوں کی اندر داخل ہونے سے پہلے ہی اتار کر انکے ہاتھ میں دیدی جاتی ہے سرکاری دفاتر میں عزت سے وہی افراد آسانی سے آجا سکتے ہیں اور بیٹھ سکتے ہیں جو ان ملازمین کے دوست ہوں،ٹاؤٹ ہوں،مفاد دینے والے ہوں یا پھر انکے رشتہ دار ہوں انکے علاوہ کسی اور کو دیکھ کر افسران کا موڈ آف ہوجاتا ہے پنجاب کے بہت سے افسران آج بھی عوامی نمائندوں کا فون سننا گوارا نہیں کرتے جو طریقہ، لہجہ اور طاقت فردوس عاشق اعوان نے سرکاری ملازم کو دکھائی ہے شروع سے حکومت کو اس اپروچ کے ساتھ کام کرنا چاہیئے تھا جس کے بعد ہمیں واضح تبدیلی آ رہی ہوتی ان سرکاری بابوں، سفارشی بیوروکریٹس اور میڈموں کی عیاشی لگی ہوئی ہے یہی وجہ ہے ان سرکاری افسران کی نااہلی اور کام چوری نے عام آدمی کو حکومت مخالف کر دیا ہے امیر اور طاقتور آدمی کے ساتھ ان کا رویہ جی جی والا ہوتا ہے۔
جبکہ عام آدمی اور ریڑھی والے کیساتھ انتہائی توہین آمیز فردوس اعوان نے جو کیا ٹھیک کیا بیوروکریسی کوعوامی نمائندوں کو عزت دینا ہوگی کیونکہ وہ عوام کے ووٹ سے آئے ہوتے ہیں اگر عوامی مفاد میں سیاستدان بیوروکریسی سے پوچھ گچھ نہ کریں توعوام سے گالیاں کھائیں افسروں کو فرائض کی غفلت پر سرزنش کریں تو باتیں سنیں دو سال بیوروکریسی ٹھیک کام کرتی تو مہنگائی مافیا کبھی بھی مہنگائی کرنے میں کامیاب نہ ہوتااور نہ ہی آج کسی قسم کا بحران ہوتا یہی وجہ تھی کہ بھٹو ان کو سفید ہاتھی کہا کرتا تھا سیالکوٹ میں رمضان بازار میں جو کچھ ہوا اس میں فردوس عاشق اعوان کے لب و لہجے سے اختلاف کیا جاسکتاہے مگر یہ نہ کہیں کہ منتخب حکومت عوامی مفاد میں سوال نہ پوچھے فردوس عاشق اعوان نے جس AC PMS کی اچھی خاصی کی ہے بہت سے لوگ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے خلاف بول رہے ہیں لیکن میرا ماننا ہے کہ شہباز شریف بھی گندی زبان استعمال کیا کرتا تھااصل میں صرف بات اتنی سی ہے کہ یہ جو بابوؤں کی کلاس ہے ناں بہت ہی نواب ہیں ڈاکٹر صاحبہ نے کسی نہ کسی حد تک ٹھیک کیا ہے کہ ان لوگوں کی اگر کلاس نہ لگائی جائے تو یہ لوگ غریب لوگوں کا بالکل خیال نہ کریں یہ لوگ صرف تنخواہ لیں گے اور نوابوں کی طرح عیاشی کی زندگی گزاریں گے سی ایس ایس کر کے آنے کے بعد کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ دفتر میں بیٹھ جائیں بلکہ کبھی کبھار دفتر سے باہر نکل کر عوام کی بھی خبر لینی چاہیے۔
فردوس عاشق اعوان عوامی سیاست دان ہیں انکو پلیٹ یا موروثیت میں کرسی اور عہدہ نہیں ملا انکا لہجہ تلخ تھا وہ اس پر معذرت بھی کرلیں گی لیکن سرکاری ملازم صاحبہ کا ڈیوٹی سے چلے جانا افسر شاہی کے عمومی رویے کا عکاس ہے جب فردوش عاشق اعوان نے اس کو اس کی ذمہ داری یاد دلاتی ہیں تو وہ وہاں سے احتجاجا چلی جاتی ہے یہ ہوتے ہیں وہ چھوٹے لوگ جن کو بڑے عہدے مل جاتے ہیں اور افسر شاہی بن کر اپنے اپ کو آسمانی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں پاکستان بننے کے بعدسے آج تک اس ملک کا بیڑہ افسر شاہی کی اس سوچ اور کردار نے غرق کیا ہے سیاستدان بھی ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور جو نہیں ناچتے ان کا حال ایسا کر دیتے ہیں جیسے فردوس عاشق اعوان کا کر دیا تقریبا ہر بیوروکریٹ اپنے اپ میں ایک آزاد ریاست بن کے بیٹھا ہے ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ان سب کی یہی سوچ ہے کہ سیاستدان پانچ سال کے لئے آتے ہیں جبکہ ہم تو زندگی بھر ریاست چلاتے ہیں ہم پہ وہ حکم کیوں چلائیں؟ کسی بھی ایماندار افسر یا حکمران کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کا کام بخوبی کرتے ہیں۔ خود کام نہیں کرتے اور کام کرنے والے کو تنہا کر دیتے ہیں۔ کئی گنے چنے بیوروکریٹ ہوتے ہیں جو ایمانداری سے کام کرتے ہیں باقی سب تو مافیا بن کر اپنی من مانیاں ہی کرتے ہیں خان صاحب کی کوشش رہی تھی کہ بیوروکریسی کو ٹھیک کر دیں لیکن اندازہ نہیں تھا بیوروکریسی اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گی جتنا گند بیوروکریسی ڈال سکتی ہے آجکل ڈال رہی ہے۔
الزام ویسے بھی خان صاحب پر آتا ہے اگرکوئی ایکشن حکومت لے بھی تو عدلیہ بیچ میں آ جاتی ہے زیادہ مشکل ہو تو اسٹیبلیشمنٹ کود پڑتی ہے یہ مافیا درخت کی جڑوں کی طرح ہر ادارے میں پھیلا ہوا ہے کرپٹ حکومت مل ملا کر چلتی ہے ان کے ساتھ اور خان صاحب جیسے لوگ جب حکومت میں آتے ہیں تو ان کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں ان کے بچھائے ہوئے کانٹوں کو صاف کرتے کرتے پانچ سال نکال دیتے ہیں وہی گلاسڑا ہوا سسٹم اور بوسیدہ نظام وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے اس ملک کی بربادی میں اس ملک کے افسر شاہی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے جو خود کام تو کرتے نہیں سیاستدانوں کو کرپشن کے طور طریقے بتانے میں ماہر ہوتے ہیں اوپر سے ان افسران کے ہمدرد بھی بہت ہوتے ہیں چیف سیکریٹری پنجاب نے بھی کمال محبت دکھاتے ہوئے فورا وزیر اعلی سے شکایت لگا دی ان صاحب سے پوچھا جائے کہ انتظامی افسران کونسی فرنٹ لائن پر لڑ رہے آٹے چینی کا بحران ہو یا خود ساختہ مہنگائی ان سب کو کنٹرول کرنے میں یہ انتظامی افسران بری طرح ناکام رہتے ہیں جعلی اشیاء ہر شہر میں دھڑلے سے تیار ہوکر گلی محلوں میں فروخت ہو رہی ہیں۔
جعل سازی سے یاد آیا سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن جنہوں نے چربہ ساز پرڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کے کہنے پر ایک فلم کی تقریب رونمائی کی تھی اور پھر اپنے بیٹے کی جعل سازی منظر عام پر آنے کے بعد فورا ہی توبہ تائب ہوکر اس فلم کو ڈبہ میں بند کر120کے زاویہ پر یو ٹرن لے لیا اور صاف مکر گئے اس فلم کی تفصیلات پھر کبھی سہی ابھی تو پنجاب کے بابوؤں کا حال پڑھ لیں جو حکمرانوں کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی بے عزت کرتے ہیں اگر ہماری ایجنسیاں بلخصوص آئی بی پنجاب میں ان افسران کی مدد نہ کریں تو یہ نااہل اور نکمے ایک سگریٹ چرس کا بھی برآمد نہ کرسکیں گندم اور چینی سمیت اشیائے خردونوش سے بھرے ہوئے بڑے بڑے گودام تک پہنچنا انکے بس کی بات ہی نہیں آج ہم اخبارات اور ٹی وی پر جتنی بھی کاروائیاں دیکھ رہے ہوتے ہیں انکے پیچھے وہ گمنام افراد ہوتے ہیں جو کبھی بھی سامنے نہیں آتے بلکہ ان تک اپنی معلومات پہنچاتے ہیں جسکے بعد اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنریا پھر متعلقہ پولیس کاروائی ڈال کر اپنے کھاتہ میں ڈال لیتی ہے جواد رفیق صاحب بتائیں گے کہ انکے افسران کونسی فرنٹ لائن پر کھڑے ہیں۔
زرا آپکو یاد ہو تو یہی انتظامیہ تھی جو شوباز کی گالیاں سن کر بھی ان میں بولنے کی جرات نہ تھی صرف حکومت کی کمزوری سے آپ لوگوں کو جرات ہور ہی ہے کہ آپ کام بھی نہ کریں اگر کوئی نشاندہی کرے توپھر آنکھیں دکھائیں موجودہ حکومت خصوصا پنجاب کی ڈھیلی ڈھالی حکومت کو بیورو کریسی نے ہر شعبہ میں مکمل طور پر ناک آوٹ کر کے خان کی 22سالہ جدوجہد کو ڈھائی سال میں ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ہے اب عمرانی حکومت کے پاس آخری آپشن بیورو کریسی کے خلاف جنگ (جس میں پہلے مرحلے میں بڑے گھروں اور بڑی گاڑیوں کی بازیابی ہے)کا آغازہی بچتا ہے ورنہ پی ٹی آ ئی کی انہی بابوؤں کے ہاتھوں بربادی نوشتہ دیوار ہے اب زرا مریم نواز شریف صاحبہ کو دیکھیں کہ وہ ڈاکٹر فردوس عاشق کے خلاف ٹویٹ پر ٹویٹ کررہی ہیں وہ بھی اس بیوروکیٹ کے غم میں جنہیں اسکا اپنا ڈیکٹیٹر باپ اور چچا اپنے جوتے کی نوک پے رکھتے تھے خود جان بوجھ کے پین نیچے گرا کے خاتون ایس پی پولیس سے اٹھوانا پھر فاتحہ انداز میں گفتگو فرمانا کہ ہم تو ہیں ہی حکمران خا ندان سے کون پوچھے گامیں سمجھتا ہوں کہ پنجاب حکومت کو اب اپنے پالے ہوئے سفید ہاتھیوں کا سختی سے محاسبہ کرنا چاہیے جو عوام اور عوامی نمائندوں کو مشکلات سے دوچا کرتے ہیں۔