برازیل (اصل میڈیا ڈیسک) ایک بھارت کے وزیر اعظم اور دوسرے برازیل کے صدر، دونوں عوامیت پسند اور برسراقتدار، اس کے علاوہ ان دونوں حکمران سیاست دانوں میں کیا کچھ مشترک اور کیا مختلف ہے؟ دونوں مذہبی اور قوم پسند ہیں لیکن دونوں میں بڑے فرق بھی ہیں۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی بھارت نے اہنے ہاں کورونا وائرس کے متاثرین اور اس عالمی وبا کے باعث مرنے والوں کی مجموعی تعداد کے حوالے سے برازیل کو پیچھے چھوڑ دیا اور اس وبا سے دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن گیا۔ بھارت میں آج بھی اس مہلک وائرس کی نئی انفیکشنز اور کووڈ انیس کی وجہ سے اموات کے روز بروز نئے ریکارڈ بنتے جا رہے ہیں۔ لیکن اس صورت حال کے باوجود بھارت اور برازیل دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے ہاں مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ نہیں چاہتیں۔
بھارت اور برازیل میں قدر مشترک صرف یہی نہیں ہے۔ دونوں ہی ان ریاستوں میں شمار ہوتے ہیں، جو خود کو ابھرتی ہوئی بڑی اقتصادی طاقتیں سمجھتی ہیں اور مختصراﹰ ‘برِکس‘ کہلاتی ہیں۔ اس گروپ میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ برازیل اور بھارت میں یہ بات بھی مشترک ہے کہ دونوں ہی ممالک میں عوام کی آمدنی میں بہت بڑی خلیج پائی جاتی ہے: ایک چھوٹی سی اشرافیہ انتہائی امیر ہے، اس کے بعد چھوٹا سا متوسط طبقہ ہے اور اس کے نیچے عوام کی وہ اکثریت ہے، جس میں غربت اور محرومی بہت نیچے تک پھیلی ہوئی ہیں۔
بھوپال سمیت کئی متاثرہ شہروں میں بہت سے شمشان گھاٹوں نے زیادہ لاشوں کو جلائے جانے کے لیے اپنی جگہ بڑھا دی ہے لیکن پھر بھی ہلاک شدگان کے لواحقین کو اپنے عزیزوں کی آخری رسومات کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ بھوپال کے ایک شمشان گھاٹ کے انتظامی اہلکار ممتیش شرما کا کہنا تھا، ’’کورونا وائرس دھڑا دھڑ ہمارے لوگوں کو نگلتا جا رہا ہے۔‘‘
نئی دہلی اور برازیلیہ دونوں ہی دارالحکومتوں میں دائیں بازو کے ایسے قوم پسند اقتدار میں ہیں، جو جوشیلے مذہب پسند عناصر کے ساتھ مل کر ریاست کے جمہوری اداروں کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔
جرمن ادارہ برائے عالمی اور علاقائی علوم (GIGA) کی خاتون صدر امریتا نارلیکر کہتی ہیں کہ عالمی سطح پر کورونا کی وبا کے حوالے سے سخت لاک ڈاؤن کی ضرورت اور اس وبا کے وجود ہی پر شبے کی سوچ سے متعلق جو متوازی مثالیں پائی جاتی ہیں، ان سے کسی بھی طرح کے نتائج اخذ کرنے میں جلد بازی فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ہو گی۔
وہ کہتی ہیں، ”مغربی دنیا کے ترقی پسند حلقوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ زمین کے جنوبی نصف حصے کی ریاستوں کے بارے میں ایسے سوچیں، جیسے آپ ہر کسی کے بال ایک ہی کنگھی سے سنوارنا شروع کر دیں۔ اس لیے تجزیہ کاروں اور مبصرین کو بہت محتاط رہنا چاہیے اور مشترک قدروں کے ساتھ ساتھ اقدار میں فرق پر بھی دھیان دینا چاہیے۔‘‘
اس فرق سے مراد ثقافتی یا جغرافیائی تفریق نہیں بلکہ وہ مختلف رویے بھی ہیں، جو کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران دیکھنے میں آئے ہیں۔ مثلاﹰ برازیل کے صدر جیئر بولسونارو آج تک اپنے اس پہلے اور آخری موقف سے پیچھے نہیں ہٹے کہ کووڈ انیس کی وبا ان کے نزدیک دراصل نزلے زکام جیسی بیماری ہے، جس کا ملیریا کے خلاف استعمال کی جانے والی دوا سے علاج کیا جا سکتا ہے۔
اس کے برعکس بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس مارچ سے لے کر مئی تک ملک میں بہت سخت لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا اور اس عمل کو تحریک بھی دی تھی کہ بھارت میں کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری اور پیداوار جلد از جلد شروع ہونا چاہیے۔
امریتا نارلیکر کہتی ہیں، ”صدر بولسونارو کے مقابلے میں وزیر اعظم مودی نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر فوری کاوشیں نا کی گئیں، تو انسانی جانوں کی صورت میں ادا کی جانے والی اس تاخیر کی قیمت کتنی زیادہ ہو گی۔ لیکن اگر بھارت میں کورونا کی وبا کی موجودہ اور انتہائی ہلاکت خیز صورت حال کو دیکھا جائے، تو یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ نریندر مودی نے وہ وقت استعمال ہی نہیں کیا جو ان کے پاس تھا اور جس کی مدد سے وہ بھارت کو اس وبا کی دوسری لہر کے لیے بہت اچھی طرح تیار کر سکتے تھے۔‘‘
مودی حکومت پر دباؤ کورونا کی وبا کی دوسری لہر کے شدید ہو جانے سے شروع نہیں ہوا۔ اب یہ دباؤ بس شدید ہو گیا ہے۔ اس کا آغاز تو بھارتی کسانوں کے ان احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ہی ہو گیا تھا، جو 2020ء کے اواخر میں شروع ہوئے تھے اور ابھی تک جاری ہیں۔
معروف ماہر سیاسیات ژورگ نوواک کہتے ہیں، ”بھارت میں کورونا کی وبا کی دوسری لہر کا انتہائی ہلاکت خیز ہو جانا مودی کی عوامی مقبولیت میں مزید کمی کا سبب بنا ہے۔ جنوری میں جب بھارت کا قومی دن منایا جا رہا تھا، اس روز تو حکومت کے زرعی اصلاحات کے متنازعہ پروگرام کے خلاف ملکی کسانوں کے احتجاجی مظاہرے ایک نئی انتہا کو چھونے لگے تھے۔‘‘
بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ہندو مذہبی تنظیم آر ایس ایس کی وسیع تر حمایت کی طرح، برازیل میں صدر بولسونارو بھی زیادہ تر پروٹسٹنٹ مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والے مذہب پسندوں کی حمایت سے اقتدار میں آئے تھے۔
پہلے وہ ایک چھوٹی سی سیاسی جماعت کے پچھلی صفوں میں نظر آنے والے غیر معروف سیاست دان تھے۔ صدر بننے کے ایک سال بعد 2019ء میں انہوں نے اس پارٹی سے اپنا تعلق ختم کر لیا اور ایسے صدر بن گئے جن کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں اور جنہیں ہر نئے قانون کی پارلیمانی منظوری کی خاطر نئے سرے سے اکثریتی تائید کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی۔
برازیلیہ کی یونیورسٹی سے منسلک محقق اور ماہر سیاسیات ثورگ نوواک کہتے ہیں، ”صدر بولسونارو کی طاقت بھی واضح طور پر کم پڑتی نظر آ رہی ہے۔‘‘ بولسونارو کو اب ملکی پارلیمان کی ایک کمیٹی کی طرف سے چھان بین کے دوران اس کے سامنے پیش ہو کر یہ وضاحت دینا ہے کہ کووڈ انیس کا وبائی مرض برازیل میں چار لاکھ سے زائد شہریوں کی موت کی وجہ کیسے اور کیوں بنا؟
مودی اور بولسونارو میں ایک اور قدر مشترک یہ بھی ہے کہ وہ اپنی سیاسی خواہشات پر عمل درآمد کرتے ہوئے بظاہر آئینی ریاست کو کمزور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ برازیل میں بولسونارو نے جو کچھ کرنے کی دھمکی دی، بھارت میں مودی وہ کر بھی چکے۔
اپنے دوبارہ انتخاب کے کچھ ہی عرصے بعد مودی نے 2019ء میں نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر کے پاکستان اور بھارت کے مابین متنازعہ خطے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی۔
پھر وہی دباؤ، جو حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتی ہے، یہاں تک استعمال کیا گیا کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھارت میں اپنا کام روک دینا پڑ گیا۔
بھارت آسٹریلوی اخبار کی رپورٹ پر اتنا برہم کیوں ہے؟
یہی نہیں اس سال فروری میں بھارتی کسانوں کی احتجاجی مہم کے حوالے سے مودی حکومت کی طرف سے باقاعدہ شکایت کے بعد ٹوئٹر نے 500 سے زائد بھارتی اکاؤنٹ بند بھی کر دیے۔ یہ وہ پیش رفت ہے، جس کا کم از کم برازیل میں تو آج بھی تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
بات یہ ہے کہ بھارت اور برازیل دونوں میں ہی ایسے قوم پسند حکمران اقتدار میں ہیں، جن کی عوامیت پسندی کی یہ ممالک اقتصادی اور انسانی دونوں حوالوں سے بڑی قیمت چکا رہے ہیں۔