بالکل بجا فرمایا چیف آف آرمی سٹاف قمر جاوید باجوہ نے کہ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا۔ اِس ایک مختصر سے جملے میں معانی کے جہاں آباد ہیں۔ حقیقت یہی کہ اگر اِیک گھر کے افراد باہم جوتم پیزار ہوں اور ہر کسی کی ”اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ” ہو تو گھر بستے نہیں، اُجڑ جاتے ہیں۔ اگر وسیع معنوں میں دیکھا جائے تو وطنِ عزیز بھی ہماراگھر ہی ہے جس میں بسنے والوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا لیکن ہمارے ہاں یہ مفقود۔ آئینِ پاکستان میں ہر ادارے کی حدودوقیود متعین لیکن بدقسمتی سے گزشتہ سات عشروں سے ہر ادارہ اپنی ”جائے” سے باہر نکل کر چلتا ہوا دکھائی دیتاہے ، خرابی کی اصل جڑ بھی یہی۔ قصور اِن اداروں کا بھی نہیںکہ وطنِ عزیز میں جس سیاسی جماعت کی حکومت بھی آتی ہے وہ اِن اداروں سے مَن مرضی کے کام نکلوانے کی کوشش کرتی ہے، بنیاد اِس کی ہمیشہ اپوزیشن کو رگیدنا ہی ہوتی ہے۔ اگر کسی ادارے کا سربراہ حکومتی فرامین کی بجاآوری سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دے کہ اِس فرمان کی آئین اجازت دیتا ہے نہ قانون تو اُس سربراہ سے جان چھڑانے کی مقدور بھر کوشش کی جاتی ہے۔ یہ پریکٹس تواتر سے جاری ہے لیکن تحریکِ انصاف کی حکومت نے اِسے اپنی انتہاؤں تک پہنچا دیا ہے۔ جب گھر کا سربراہ ہی ضدی، اناپرست اور نرگسیت کا شکار ہو تو پھر گھر اُجڑ جایا کرتے ہیں۔ محترم چیف آف آرمی سٹاف نے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اپنا فرض تو ادا کر دیا۔ سوال مگر یہ کہ کیا حکومت کے کان پر جوں تک بھی رینگی؟۔
ایک چھوٹی سی مثال میاں شہباز شریف کی جنہیں لاہور ہائیکورٹ نے علاج کی خاطر ملک سے باہر جانے کی 8 ہفتے کے لیے اجازت دی۔ سبھی جانتے ہیں کہ میاں شہبازشریف اُس وقت سے کینسر کے مریض ہیں جب وہ سعودی عرب میں جلاوطنی کے دن کاٹ رہے تھے۔ تب بھی پرویز مشرف کی ایماء پر اُنہیں علاج کے لیے سعودی عرب سے لند ن جانے کی اجازت ملی۔ اُس وقت سے لے کر اب تک میاں شہبازشریف ہر 6 ماہ بعد اپنا میڈیکل چیک اَپ کروانے لندن جاتے رہتے ہیں۔ اِسی بنا پر لاہور ہائیکورٹ نے اُنہیں اجازت دی ۔ اِس اجازت نامے پر فوادچودھری اور شہزاد اکبر بہت چیںبچیں بھی ہوئے۔ فوادچودھری نے تو یہاں تک کہہ دیا ” اِس طرح سے شہبازشریف کا فرار ہونا بدقسمتی ہوگی۔ شہبازشریف کو باہر جانے کی اجازت دینا قانون کے ساتھ مذاق ہے۔اتنی جلدی تو فیصلہ پنچایت میں بھی نہیں ہوتا”۔ سوال یہ ہے کہ کیا قانون کے ساتھ مذاق محترم جسٹس علی باقر نجفی نے کیا ہے کیونکہ اجازت دینے کا فیصلہ تو اُنہی کی سربراہی میں ہوا۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ کہ اگر فوادچودھری کا یہ بیان بھی توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتا تو پھر توہینِ عدالت کس چڑیا کا نام ہے؟۔ بے بَسی سے ہاتھ ملتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ اِس فیصلے کے خلاف اپیل بھی 16 مئی کے بعد ہی کی جا سکتی ہے کیونکہ 8 سے 16 مئی تک مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ اِس فیصلے پر تحریکِ انصاف کے ارکان کی جانب سے صرف تنقید وتضحیک کے تیروں کی بوچھاڑ ہی نہیں کی گئی بلکہ میاں شہبازشریف کو لندن جانے سے روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کے منصوبے بھی باندھے گئے۔
7 مئی کو جب میاںشہباز شریف بذریعہ قطرایئرویز لندن جانے کے لیے ایئرپورٹ پر پہنچے تو امیگریشن حکام نے اُنہیں یہ کہتے ہوئے روک لیا کہ اُن کا نام ابھی تک بلیک لِسٹ میں شامل ہے۔ عطاء اللہ تارڑ نے حکام کو لاہور ہائیکورٹ کا آرڈر دکھایا اور پڑھ کر بھی سنایا لیکن امیگریشن حکام نے عدالتِ عالیہ کے حکم نامے کو بھی ہوا میں اُڑا دیا۔ بہانہ یہ تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود امیگریشن حکام کے پاس موجود لِسٹ کے مطابق میاں شہبازشریف کا نام ابھی تک بلیک لسٹ افراد میں شامل ہے اور جب تک حکومت کی جانب سے کوئی حکم نامہ نہیں آتامیاں صاحب ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ لگ بھگ ایک گھنٹے کے بحث ومباحثے کے بعد میاں شہباز شریف گھر روانہ ہو گئے۔ عطاء اللہ تارڑ کہتے ہیں کہ جب زُلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکالا گیا تو کسی کو کان وکان خبر نہ ہوئی۔ اب ہائیکورٹ کے فیصلے کی صریحاََ خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ نوازلیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ”عمران خاں اور شہزاداکبر کے حکم پر شہبازشریف کو روکا گیا۔ یہ توہینِ عدالت کے زمرے میں آتاہے۔ سسٹم اَپ ڈیٹ نہ ہونے کا دعویٰ جھوٹ ہے۔ یہ چھوٹی حرکتوں پر اُتر آئے ہیں، اِس سے شہبازشریف کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ آج نہیں تو کل روانہ ہو جائیں گے۔ ہم اِس معاملے کو عدالت میں چیلنج کریںگے”۔ میاں شہبازشریف لندن جا سکتے ہیں یا نہیں، یہ بہرحال طے ہو گیا کہ حکمران عدالتی فیصلوں کو بھی پرکاہ برابر حیثیت نہیں دیتے۔
پہلے بھی عرض کیا جا چکا کہ جب گھر کا سربراہ ہی گھر کی بربادی پر تُلا بیٹھا ہو تو پھر کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔ جن لوگوں نے بڑے ذوق وشوق سے اِس اُمید پر تحریکِ انصاف کو ووٹ دیئے کہ اُن کی تقدیر بدلنے والا مسیحا آگیا ہے، آج اُنہی کی پیشانیاں عرقِ ندامت سے تَر ہیں۔ اگر سچائی کی تلاش کرنی ہو تو کسی جانب دار یا غیر جانب دار تبصرہ نگار کے تبصروں پر کان دھرنے کی بجائے پورے پاکستان میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات پر ایک نظر دوڑا لیں، دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اِن ضمنی انتخابات میں ہر جگہ تحریکِ انصاف کو بُری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسدعمر نے کہا کہ وزیرِاعظم اسمبلیاں بھی توڑ سکتے ہیں۔ باوثوق ذرائع بھی اِس کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں۔ اُن کے خیال میں وزیرِاعظم اپوزیشن کے اندرونی اختلافات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے اسمبلیاں توڑ کر قبل اَز وقت انتخابات کروا دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں بُری ہزیمت کے بعد کیا وزیرِاعظم نئے انتخابات کا رِسک لے سکتے ہیں؟۔ ہمارے خیال میں تو وہ آخری وقت تک کُرسی سے چمٹے رہیں گے لیکن اگر وہ واقعی اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کی طرف جاتے ہیں تو یہ فیصلہ تحریکِ انصاف کی بربادیوں کو اپنے جَلو میں لے کر آئے گا۔
حقیقت یہی کہ وزیرِاعظم کرائسز سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں تو مار رہے ہیں لیکن سب بے سود کیونکہ تحریکِ انصاف نے نہ پہلے کبھی ”ہوم ورک” کیا، نہ اب کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ وزیرِاعظم خود اقرار کر چکے ہیں کہ اُنہیں کارزارِ سیاست کی گھُمن گھیریوں کا پتہ نہیں تھا۔ جس طرح سے کابینہ میں اُتھل پُتھل جاری ہے، پہلے کبھی دیکھی نہ سُنی۔اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیرِاعظم میدانِ سیاست کے کھلاڑی نہیں، اناڑی ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ محض پونے تین سالوں میں وفاقی کابینہ میں 7 دفعہ رَدوبدل کیا جاتا۔ وزارتِ خزانہ جو کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڑی کی حیثیت رکھتی ہے، اُس میں پہلے اسدعمر کو آزمایا گیا، پھر اسد عمر کی جگہ حفیظ شیخ نے لے لی۔ جب حفیظ شیخ معیار پر پورے نہ اُترے تو حماد اظہر کو وزارتِ خزانہ سونپ دی۔ حماد اظہر محض چند دِن وزیرِخزانہ رہے اور اب شوکت ترین کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ شوکت ترین اور حفیظ شیخ نے پیپلزپارٹی کے دَورِحکومت میں کون سے تیر مار لیے تھے جو وزیرِاعظم کی نگاہِ انتخاب اِن پر پڑی۔ ہمارے خیال میں شوکت ترین کی وزارتِ خزانہ محض 6 ماہ کے لیے ہے کیونکہ اِس دوران اُنہیں یا تو قومی اسمبلی کا رُکن منتخب ہونا پڑے گا یا پھر سینیٹر۔ حکومتی حلقوں میں جس طرح سے بغاوت کے آثار نظر آ رہے ہیں اُسے مدِنظر رکھتے ہوئے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ شوکت ترین رُکنِ قومی اسمبلی یا سینیٹر منتخب ہو پائیں۔ صرف وزارتِ خزانہ ہی کیاآپ کسی بھی وزارت کو اُٹھا کر دیکھ لیجئیے، اُس کی کارکردگی صفر بٹا صفر ہی نظر آئے گی۔ ایسے میں فی الحال تو گھر کو ٹھیک کرنے کے آثار نظر نہیں آتے البتہ خواہش اور دُعا ہی کی جا سکتی ہے۔