امریکا نے دوحہ معاہدے سے بار بارانحراف کیا۔ منفی نتائج کا خود ذمے دار ہو گا۔ یہ بات امریکا کو دھمکی دیتے ہوئے افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے طالبان کی ویب سائیٹ جاری کردہ بیان میں کہی۔ معاہدے کے مطابق طالابان قیدیوں کی رہائی مذاکرات کے آغاز کے 3 ماہ بعد ہونا چاہے تھی جو آج تک نہیں ہوئی۔ بلیک لسٹ میں ڈالے گئے طالبان ذمہ داران کے نام اب تک نہیں نکالے گئے۔ بیرون فوجوں کا انخلا مئی کو ہونا تھا جسے ستمبر تک بڑھا دیا گیا۔ جبکہ طالبان نے معاہدے میں کیے گئے اپنے وعدے شریعت کے مطابق پورے کیے۔(امریکا کے ذمہ داران خود کہتے سنے گئے کہ معاہدے کے بعد طالبان نے ایک بھی امریکی فوجی کو ہلاک نہیں کیا)۔امیر طالبان نے کہا کہ ہم ایک بار پھر تاکید کرتے ہیں کہ تمام معاملات دوحہ معاہدے کے مطابق آگے بڑھائے جائیں۔مذید اشتعال انگیز اقدامات اور انحرافات سے احتراز کیا جائے۔
صاحبو!بات کی اس طرح ہے کہ صلیبیوں نے 1923ء میں ترکی کی خلافت جو اس وقت تین براعظوں پر پھیلی ہوئی تھی کو ختم کرکے اس کے چھوٹے چھوٹے راجوڑے بنا کرآپس میں بانٹ لیا تھا۔ان پر اپنے پٹھو مسلمان حکمران بیٹھا دیے تھے۔ صلیبیوں نے اُس وقت کہا تھا کہ اس کے بعد کہیں بھی مسلمانوں کو خلافت قائم نہیں کرنے دیں گے۔ جب الجزائر میں ان کی وضع کردہ جمہوریت کے تحت آزاد رائے سے الجازئر کے عوام نے الیکشن جیتا اور خلافت قائم کرنے کی کوشش کی ۔فرانس کی تربیت یافتہ الجزائر کی فوج نے اقتادار ان کو منتقل نہیں کیا گیا۔ فوج کے ذریعے جمہورت کا گلا گھونٹ دیا۔ لاکھوں کو موت کی نید سلا دیا۔
اسی طرح مصر میں اخوان المسلمین نے جمہوری طریقے سے الیکشن جیت کر خلافت،یعنی اسلامی حکومت بنائی توڈکٹیٹر
سیسی نے فوجی ٹینک اخوان مسلمین کے کارکنوں اورعام عوام پر چڑھا کرمرسی کی جائز جمہوری حکومت کو بزور فوجی طاقت ختم کر دیا۔ اخوان کے لیڈروں کا جانبدارعدالتی کاروائی کرکے پھانسیوں پرچڑھا دیا۔ ہزاروں کو قید میں بند کر دیا۔ مصر کے منتخب صدر مرسیؒ جیل میں ہی شہید ہو گئے۔ افغنستان میں بھی طالبان نےامیر ملا عمرؒ کی سربراہی میں امارت اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ طالبان کی حکومت پانچ سال قائم رہی۔ جس نے وار لارڈز سے اسلحہ واپس لے کر ملک میں امن وامان قائم کیا۔ پوسٹ کی کاشست تک ختم کر دی۔(جواب اشرف غنی امریکی پٹھو حکومت میں زوروں پر ہے) کسی بھی پڑوسی ملک میں مداخلت نہیں کی۔ مگرامریکا نے خود ساختہ ناین الیون کا واقعہ کرا کر اس کا الزام شیخ اسامہ بن لادن کے ذمہ لگا دیا۔ جبکہ اسامہ بن لادن پہاڑوں میں رہ رہا تھا ۔ ملا عمر سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرے۔ ملا عمرؒ نے کہا کہ آپ ثبوت دو۔ ہم بین الا قوامی اصولوں کے مطابق اپنے ملک میں مقدمہ قائم کر کے قرار واقعی ہی سزا دے گے۔ اسامہ بن لادن تو امریکا ایک بہانہ تھا۔ ایک اسلامی ریاست جو طالبان نے افغانستان میں قائم کی تھی اسے ختم کرنا تھا۔ امریکا جو طالبان کو مجائد کہتے ہوئے تھکتا نہیں تھا۔ ان کو دہشت گرد کہنا شروع کردیا۔
دشمن ملت ڈکٹیٹرپرویز مشرف کو فون کال پر دھمکی دی کہ افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے امریکا کا ساتھ دو ورنہ بمباری کر کے پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا دیا جائے گا۔ بزدل کمانڈو مشرف نے امریکا کے دبائو میں آکر اپنے کور کمانڈر اور سیاسی لیڈر شپ سے مشورے کے بغیرامریکا کو لاجسٹک سپورٹ کے نام پر پاکستان کے بری بحری اور فضائی راستے دے دیے ۔ پھرامریکا نےاپنی48 ملکوں کی نیٹو فوجیوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہو گیا۔ رشیا کی طرف سے تباہ کیے گئے بچے کچھےافغانستان میں ڈیزٹ کٹنگ بمباری اوردنیا کا سب سے بڑا بم، جسے مدر بم کہا جاتا ہے گرا کر افغانستان کو تورا بورا بنا دیا۔ ہوائی حملے کر کے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مگر فاقہ مست افغانوں نے پہلے دنیا کی والڈ آڈربرطانیہ، دوسری ورلڈ آڈر رشیا اوراب تیسری ورلڈ آڈر امریکا کو شکست فاش دی۔ یہ صرف اور صرف جہاد فی سبیل اللہ اختیار کرنے کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا کہ اکثرکثیر تعداد کو قلیل تعداد سے اس نے شکست دی۔
روس میں امریکا، بھارت ،روس، چین پاکستان کے نمایدے ایک کانفرنس میں شریک ہوئے۔ کہا کہ ہم افغانستان میں افغان طالابان کی اسلامی حکومت کی حمایت نہیں کرتے۔ آپ کون ہوتے ہیں؟ جن افغانوں نے اپنے خون اور پسینے سے دنیا کی سپر طاقت امریکا کو اللہ کی مدد سے شکست دی۔ اس کو آپ کیسے ڈکٹیٹ کر سکتے ہیں۔ افغانان عوام کا حق ہے وہ اپنے سے جو بھی حکومت چائیں قائم کریں ۔ جو یقیناً اسلامی حکومت ہو گی۔ امریکا اور روس کو تو افغان عوام کے جنگ کا توان ادا کرنا چاہے۔ اس سے وہ اپنے ملک کو ترقی پر گامزن کریں۔
طالابان کے امیرملا ہیبت اللہ نے افغان عوام کو جامع اسلامی نظام کی یقین دھانی کرائی ہے۔ کہا کہ ملک کو سب سے پہلے تعمیر نو اور شرعی نظام کے سائے میں عہدوں اورذاتی مفادات سے بلاتر ہو کر ترقی کے راستے پر ڈالنا ہے۔عفو، در گزر اور ایک دوسرے پر رحم کے جذبے سے ایک مضبوط اور متحد قوم بن کر رہنا ہے۔ ہم اطمینان دلاتے ہیں کی جارحیت کے خاتمے کے بعد ایک ایسا افغان شمولیتی نظام قائم کرنا ہے۔ ان میں تمام اکائیوں کو اپنی اہلیت اور استعداد کے مطابق حصہ ملے گا۔ میں مخالف لوگوں کوایک بار پھردعوت دیتا ہوں کہ جنگ کو مذید طول دینے کی کوششوں کو چھوڑ دیں۔ افغانستان ہم سب کا گھر ہے۔ ہم سب مسلمان ہیں ۔ اختلافات اور تعصبات سے بچیں۔ امارت اسلامیہ کا سینہ سب افغانوں کے لیے کھلا ہے۔ جوپہلے مخالف تھے ان کی طرف عفو اور درگزر اور دوستی کا ہتھ برھاتے ہیں انہیں راہ حق کی حمایت اور تعاون کی دعوت دیتے ہیں۔ ہٹ دھرمی، کینہ پروری، اور دشمنی کا کوئی فاہدہ نہیں ہوگا۔ برداشست تحمل، اور حقائق کو تسلیم کر کے قومیں عزت اور فخر کے مقام تک پہنچ سکتی ہیں۔
یہ تواپنی قوم کو کہا اور شیطان کبیر کو دھمکی دی کہ معاہدے کی خلاف دردی کی توپھر ہم میدان میں ہی ہیں۔ مجائدین فی سبیل اللہ کا یہی وتیرہ ہے رہا ہے۔ دمشن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔اور اپنے سے درگزر کرتے ہیں۔