ممبئی (اصل میڈیا ڈیسک) گزشتہ برس کورونا وبا کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت دیکھی گئی اور لوگوں نے تالیاں بجاتے ہوئے ’گو کورونا گو‘ کے نعرے بھی لگائے۔ لیکن اس وبا کی دوسری لہر نے قوم پرست لیڈر کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکال دی۔
بھارت میں کورونا وبا کی دوسری لہر نے پوری شدت کے ساتھ پھیلتی جا تہی ہے اور ابھی تک اس کے کنٹرول کے امکانات سامنے نہیں آئے ہیں۔ لوگ پریشان اور علاج کے لیے بے چین ہیں۔ اس صورت حال میں بھی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیا جنتا پارٹی اور اس کے لیڈر وزیر اعظم نریندر مودی اپنی حکومت کا تشخص بلند کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بین الاقوامی سطح پارٹی اور مودی حکومت کے ایسے اقدامات جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔
یہ ایک عام تاثر ہے کہ مودی اپنی سیاسی ساکھ کو بہت عزیز رکھنے والے سیاست دان ہیں۔ سن 2014 میں برسراقتدار آنے کے بعد سے انہوں نے اپنی شخصیت کی چھاپ ہر شعبے پر ڈالنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ ا’نریندر مودی: دی مین، دی ٹائمز‘ کے مصنف نیلانجن مکھوپدائے کا ڈی ڈبلیو سے گفگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اپنی پبلسٹی اور امیج بلڈنگ مودی کی سیاست کا مرکزہ رہا ہے اور وبا میں بھی ان کا یہ پہلو برقرار رہا۔
نیلانجن مکھوپدائے نے مزید کہا کہ چند روز قبل ملکی وزیر خارجہ نے دنیا بھر میں بھارتی سفارت خانوں کو ہدایت کی وہ وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے مودی حکومت کے انتظامات کی بھرپور طریقے سے تشہیر کریں اور ایسا ہی ملک کے اندر سرکاری ملازمین کو بھی کہا گیا ہے۔
نیلانجن مکھوپدائے کا خیال ہے کہ کورونا کی پہلی لہر کے دوران نریندر مودی اس وبا کی شدت کا اندازہ لگانے سے قاصر رہے تھے اور اب دوسری لہر کی انتہائی شدت نے سارے سیاسی و انتظامی منظر نامے کو تبدیل کر دیا ہے۔
ایک برس بعد بھارت کے شہریوں کو صحت کی بنیادی ضروریات تک رسائی کے لیے جد و جہد کرنا پڑ رہی ہے۔ کورونا وبا کے علاج میں شدید مشکلات حائل ہیں اور بیماروں کو ہسپتالوں میں نہ داخلہ مل رہا ہے اور نہ ہی آکسیجن سلنڈرز میسر ہیں۔ نعشوں کو شمشان گھات تک پہنچانے اور جلانے میں بھی پریشانیاں حائل ہو چکی ہیں۔ پہلی لہر میں وبا کو کنٹرول کرنے کے انتظام کی تعریف ہوئی تھی لیکن اب ناقص انتطامات پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ یہ تنقید ملک اور اور بیرون ملک سے ہو رہی ہے۔ لوگوں میں نریندر مودی کے حوالے سے مایوسی پھیل گئی ہے۔
ترقی پذیر معاشروں کے تحقیقی مرکز (CSDS) کے پروفیسر سنجے کمار کا کہنا ہے کہ لوگ بہت مایوس ہیں اور عام آدمی وزیر اعظم کے رویے پر گہری پریشانی سے دوچار ہے کیونکہ جب انہیں وزیر اعظم کی ضرورت تھی تب وہ ان کے لیے موجود نہیں ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کا امیج کورونا بحران میں بہت داغدار ہو گیا ہے۔ انہوں نے اس صورت حال کو وزیر اعظم کی پالیسیوں اور بھارتیا جنتا پارٹی کی سیاست کا ردعمل قرار دیا ہے۔
نریندر مودی نے بے شمار غیر ملکی دوروں سے بین الاقوامی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری رکھیں اور دوسری لہر سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ دنیا میں بھارت کا امیج بہتر ہوا ہے۔ دوسری لہر میں صحت کی سہولتیں ناکافی ہونے سے یہ امیج بین الاقوامی سطح پر دھندلا گیا ہے۔ بھارتی تاریخ دان اور مصنف انانیا واجپائی کا کہنا ہے کہ جمہوری دنیا کے پریس کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مودی کا سارا تشخص تار تار ہو کر رہ گیا ہے۔
کئی مبصرین تو مودی کی لیاقت پر سوال اٹھانے لگے ہیں۔ کارنیگی ادارے کے ایک شعبے سے وابستہ میلان وائشناو کا اس تناظر میں کہنا ہے کہ ایسی سوچ دوسرے ممالک کی حکومتوں اور بین الاقوامی لیڈروں میں بھی پیدا ہو گئی ہے۔ یہی نہیں دوسرے ممالک میں مقیم بے شمار بھارتی افراد بھی اس ملکی صورت حال پر حیران اور ششدر ہیں۔
انانیا واجپائی کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کی دوسری لہر نے نریندر مودی کے امیج کو کتنا تقصان پہنچایا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔