قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا!ترجمہ : اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی ہے جو مجھے شفا دیتا ہے۔بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ نفع و نقصان پہنچانے والی، بیماری و شفاء دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ہے۔ اگر اللہ کسی کو نقصان پہچانا چاہے تو پوری دنیا مل کر اس کو نفع نہیں پہنچا سکتی ہے اور اگر اللہ کسی کو نفع پہنچانا چاہے تو پوری دنیا مل کر اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے۔آپۖ کی یہ دعا ہے: اے اللہ! جس کو آپ کوئی نعمت دینا چاہیں تو کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے آپ روک دیں، تو کوئی اسے دے نہیں سکتا ہے اور مال والوں کی اس کی مال داری نفع نہیں پہنچاتی ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ بیماری اور دواء کے درمیان ایک پردہ حائل ہوتا ہے جب اللہ کاحکم شفاء کا ہوتا ہے تو وہ درمیانی پردہ زائل ہوجاتا ہے اور دوا کارگر ہوجاتی ہے اور مریض شفاء پاجاتاہے۔ ہم امت مسلمہ کے فرد ہونے کی حیثیت سے اور عقیدے کی قوی طاقت کی بنیاد پر مسائل و مصائب سے خوف نہ کھاتے ہوئے ان تمام آفات و مشکلات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ویسے آفات کا ایک بڑا سبب گناہ، ناانصافی اور ظلم و ستم بھی ہے۔ اس لئے ہمیں بھی اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے، توبہ و استغفار کا سہارا لیتے ہوئے اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی مانگنی ہوگی۔ روٹھے ہوئے رب کو راضی کرنا ہوگا۔ ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ موت کا ایک وقت متعین ہے جس سے پہلے کسی کی موت نہیں ہوسکتی ہے اور اگر موت کا وقت آجائے تو کوئی اس کو ٹال نہیں سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس کو بہت واضح اندازمیں بیان کیا ہے:
ترجمعہ :اگر کہیں اللہ لوگوں کو اْن کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کرتا تو روئے زمین پر کسی متنفس کو نہ چھوڑتا لیکن وہ سب کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے، پھر جب وہ وقت آجاتا ہے تو اس سے کوئی ایک گھڑی بھر بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔ (سورة النحل )ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ایک کی بیماری یا مرض کا اْڑ کر دوسرے کو لگ جانا یا کسی مریض سے مرض تجاوْز کرکے صحیح سلامت تندرست آدمی میں منتقل ہوجانا! یہ بالکل باطل ہے۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ یہ اعتقاد رکھتے تھے بیماری خود اْڑ کر دوسرے کو لگ جاتی ہے، خدا تعالیٰ کی تقدیر کا اس میں کوئی دخل نہیں بلکہ یہ خود ہی مؤثر ( یعنی بذاتِ خود اثر انداز ہونے والی) ہے۔
حدیثِ پاک میں اسی نظریے کو رد فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”لَاعَدوَی” یعنی بیماری کا اْڑ کر لگنا کچھ نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے مجذوم (جذام کے مریض) کے ساتھ کھانا بھی کھایا تاکہ لوگوں کو علم ہوجائے کہ مرض اڑ کر دوسرے کو نہیں لگتا۔ تعدیہ جراثیم یعنی ”مرض کے جراثیم کا اْڑ کر دوسرے کو لگنا” کھلی حقیقت ہے، جراثیم خود مرض نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق ہے جو صرف خردبین یا الٹرا مائکرو اسکوپ کے ذریعے ہی نظر آتی ہے اور یہ جراثیم مرض کا سبب بنتے ہیں۔ پہلے زمانے کے لوگ ان جراثیم سے واقف نہ تھے تو انہوں نے یہی نظریہ بنا لیا کہ مرض مْتَعَدِّی ہوا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام نے اس کی نفی فرمائی کہ کوئی مرض مْتَعَدِّی نہیں ہوتا اسلام کے تعدیہ مرض کی نفی کرنے سے جراثیم کے مْتَعَدِّی ہونے کی نفی قطعاً نہیں ہوتی۔ کرونا وائرس کووڈ 19ایک غیر متوقع وبائی حملہ ہے، لہذٰا عصر حاضر میں سسکتی ہوئی انسانیت ‘ کووڈ 19’ جیسی موذی وباء کے نرغے میں ہے۔ جسے پہلے وبا (epidemic) کہا گیا اور بعد میں عالمی وبا (pandemic) ڈیکلیئر کیا گیا۔آج یہ کرونا کا مرضِ رذیلہ ہی ہے جو اپنے پیاروں سے دور رہنے پر مجبور کررہا ہے۔
پوری دنیا میں وباء سے وفات پا جانے والے افراد کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے دوران انسانی اقدار کی پامالی کے افسوس ناک واقعات پیش آئے ہیں، جو خاندان اپنے کسی پیارے کو کھو دینے کے صدمے سے دوچار ہیں انھیں یہ اذیت بھی برداشت کرنی پڑ رہی کہ وہ اس وبا سے مرنے والوں کی آخری رسومات بھی ادا نہیں کر سکتے۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے، جس کا کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، کسی بھی انسان کو بعد از مرگ شرعی و احترام و آبرومند طریقہ سے تجہیز و تکفین لازم و ملزوم ہے۔حالانکہ موجودہ وبائی بیماری کورونا وائرس (کووِڈـ19) سے وفات پانے والے شخص کے بارے میں عالمی اِدارہ صحت (WHO) نے جو ہدایات وبائی امراض سے متاثر میت کے لئے جاری کی ہیں، اْن میں بھی یہ صراحت ہے کہ احتیاط کے ساتھ میت کو غسل دیا جاسکتا ہے اور محتاط طریقے پر دفنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اِس سے مرض دوسروں تک منتقل نہیں ہوتا۔ اِس لئے جہاں بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے تو وہاں کے مسلمانوں کا شرعی طور پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ میت کی تجہیز وتکفین کے لئے حتی الوسع سعی کریں، اور اِس میں ہرگز کوتاہی نہ کریں، ورنہ سخت گنہگار ہوں گے۔
امریکہ میں بیماریوں کے پھیلاؤ کے انسداد کے ادارے کی ہدایات کے مطابق کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے کسی شخص کی میت کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔ ان ہدایات میں مزید درج ہے کہ میت کو چھونے کے کچھ طریقوں سے وائرس لگنے کے امکانات کم ہیں مثلاً ہاتھ پکڑنے، یا میت سے لپٹنے لیکن وہ بھی اس وقت جب میت کو تدفین کے لیے تیار کر لیا گیا ہو لیکن دیگر حرکات مثلاً میت کو چومنے سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کرونا سے ہلاک ہونے والے افراد کے سماجی اور مذہبی وقار کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کی خاندان کی عزت اور شناخت کو اس سارے عمل میں چھپایا جانا چاہیے۔ اسی لئے یورپین ممالک میں کوئی کرونا وائرس کا شکار ہوتا ہے تو اسے چھپایا جاتا ہے اور میتوں کے لواحقین بھی ان کی شناخت عام نہیں کرنا چاہتے۔ڈبلیو ایچ او کی ان گائیڈلائنز میں یہ بھی درج ہے کہ مسلمان افراد کی میت کو جب قبر میں اتار دیا جائے تو ان کے عزیزواقارب کو اجازت ہوگی کہ وہ قبر پر پہلے کچھ بیلچے مٹی ڈال دیں کیونکہ یہ مسلمانوں کے کلچر کا حصہ ہے اور اس عمل کی اجازت دینی چاہیے۔ان ہدایات میں مزید درج ہے کہ میت کو چھونے کے کچھ طریقوں سے وائرس لگنے کے امکانات کم ہیں مثلاً ہاتھ پکڑنے، یا میت سے لپٹنے لیکن وہ بھی اس وقت جب میت کو تدفین کے لیے تیار کر لیا گیا ہو لیکن دیگر حرکات مثلاً میت کو چومنے سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری ہے۔
ہدایات کے مطابق ‘اگر میت کو غسل دینا اور اس کو کفن پہنانا مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے بہت اہم رسومات ہیں تو فیملیز کو اپنی کمیونٹی اور مذہبی رہنماؤں سے رجوع کرنا چاہیے اور جنازہ گاہوں کے عملے سے بات کریں کہ کس طرح میت کو کم سے کم چھونا پڑے۔کسی بھی قسم کے موذی وبائی امراض سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر لازماً اختیار کی جائے، شرعی حکم و دلائل اس ضمن میں ثابت بھی ہیں، تاہم اس سے خوف اور دہشت میں آنے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ خوف و دہشت سے بڑا کوئی مرض یا وائرس نہیں ہے۔ بہت سے لوگ جو اس بیماری میں مبتلا نہیں ہیں، لیکن خوف نے اس پر اس قدر دبیز چادر تان لی ہے کہ وہ کرونا سے زائد مہلک بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ بعض مرتبہ نفسیاتی خوف ایک مہلک بیماری بن جاتا ہے، یہاں ایک واقعہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک مجرم کو پھانسی کی سزا طے ہوئی لوگوں نے یہ طے کیا کہ اس کو تو مرنا ہی ہے اس لیے اس کو پھانسی نہ دی جائے؛ بلکہ سانپ کے کاٹنے سے موت واقع کی جائے چنانچہ اس کو ایک کرسی پر آنکھ پر پٹی ڈال کر بٹھادیا گیا اور اس کو دو سوئی چبھوئی گئی اور تھوڑی دیر میں دیکھا گیا ہے وہ مرگیا ہے اور جب اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی تو اس میں پتہ چلا کہ اس کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہوئی ہے ،یہ صرف دہشت کا نتیجہ تھا اس مجرم نے سمجھ لیا کہ مجھے سانپ نے کانٹا ہے اورسانپ کا کاٹا نہیں بچتا ہے اس طرح اس کی موت ہوگئی، جب کہ اس کو صرف سوئی چبھوئی گئی تھی اس لیے خوف و ہراس سے بڑا کوئی مہلک مرض نہیں ہے۔