اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) سرائیل نے پیر کی صبح بھی غزہ پر فضائی حملے کیے ہیں جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے فوجی کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس طرح یہ عسکری تنازعہ اب دوسرے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ نے اتوار کی دیر شب اور پیر کو علی الصبح غزہ کے کئی علاقوں پر بمباری کی۔ اس سے قبل اتوار کے روز حماس نے بھی راکٹ کے ذریعے اسرائیل کے جنوبی علاقے کو نشانہ بنایا تھا۔
اسرائیلی فوج نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے جنگی طیارے غزہ پٹی کے علاقے میں شدت پسندوں کے اہداف کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔” خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ان فضائی حملوں کے دوران ایک موقع پر مسلسل دس منٹ تک دھماکے ہوتے رہے۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ تنازعے کے آغاز کے بعد سے اتواراب تک کا سب سے ہلاکت خیز دن تھا جب اسرائیلی بمباری میں 42 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس میں دس بچے اور 16 خواتین شامل ہیں۔ غزہ میں حکام کے مطابق اب تک اسرائیلی بمباری میں کم سے کم 192 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس میں 58 کم سن بچے، 43 خواتین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پندرہ سو کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تقریبا تین ہزار راکٹ اسرائیل پر داغے ہیں اور اس کے بھی آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس طرح اس لڑائی میں اب تک مجموعی طور پر دو سو افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزید لڑائی خطے کو ”بے قابو بحران” میں ڈال سکتا ہے۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم ‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ نے میڈیا اداروں پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی عالمی فوجداری عدالت کی مستغیث اعلی فاتو بن سوڈا سے تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے جلال ٹاور کو بمباری سے منہدم کر دیا تھا جس میں الجزیرہ اور خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹیڈ پریس جیسے کئی عالمی میڈیا کے دفاتر تھے۔
ادارے کے سکریٹری جنرل کرسٹوفر ڈیلوری کا اتوار کے روز ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا کہ میڈیا اداروں کو دانستہ طور پر نشانہ بنانا جنگی جرائم کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا، ”دانستہ طور پر میڈیا اداروں کو تباہ کر کے اسرائیلی ڈیفینس فورسز میڈیا اداروں کو نہ صرف مادی نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں بلکہ وہ اس تنازعے کی کوریج کی راہ میں بھی وسیع تر رکاوٹیں ڈال رہے ہیں جس کا عام شہریوں پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ ہم بین الاقوامی فوجداری عدالت کی پراسیکیوٹر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ آیا یہ فضائی حملے جنگی جرائم تو نہیں ہیں۔”
لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے میڈیا اداروں والی عمارت پر حملے کا دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہیکہ حماس اس عمارت کو اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹیڈ پریس کے مطابق چین، ناروے اور تیونس جیسے ممالک کی کوشش تھی کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کم سے ایک بیان جاری کر سکے جس میں جنگ بندی کی اپیل کے ساتھ معاندانہ رویہ ختم کرنے کی بات کہی جا سکے تاہم امریکا نے ایسا بھی کرنے سے باز رکھا اور اسے ویٹو کر دیا۔
اطلاعات کے مطابق امریکا کا کہنا تھا کہ وہ سفارتی سطح پر اس تنازعے کے خاتمے کی کوششیں کر رہا ہے اور اس طرح کے بیان سے اس کی کوششوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔
نیو یارک میں ڈی ڈبلیو کے نامہ نگاراینز پوہل کا کہنا ہے، ”بیشتر سفارت کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیلی کارروائی غیر قانونی ہے اور اس کی جانب سے ہلاکت خیز ہتھیاروں کا استعمال غیر متناسب اور سخت ہے۔”
نامہ نگار کے مطابق امریکا اس وقت پوری طرح سے اسرائیل کا حامی ہے اور وہ کسی بھی ایسے بیان کو ویٹو کر دے گا جس میں اسرائیل کی کارروائی کے لیے اس پر نکتہ چینی کی گئی ہو۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ان کی انتظامیہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کے لیے سرگرم ہے۔ عید کی مناسبت سے پہلے سے ریکارڈ شدہ ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا، ”میری انتظامیہ علاقے میں مستقل امن کے لیے فلسطینیوں، اسرائیل اور خطے کے دیگر شراکت داروں کے ساتھ گفت و شنید جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم اس بات پربھی یقین رکھتے ہیں فلسطین اور اسرائیل دونوں کو امن و سلامتی سے رہنے اور مساوی آزادی کا حق حاصل ہے۔”