مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن میں عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کی نیت سے سفر کرنا باعث ثواب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو مختلف ابواب کے ذیل میں ذکر کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: ”(عبادت کی نیت سے) صرف تین مسجدوں کے لیے ہی سفر کیا جائے (اور وہ ہیں) مسجد حرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد اقصی”۔ایک حدیث شریف میں مسجد اقصی میں ایک پڑھی جانے والی نماز کا ثواب، پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کے برابر بتایا گیا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک آدمی کی ایک نماز اپنے گھر میں، (ثواب میں) ایک نماز کے برابر ہے، اس کی نماز محلے کی مسجد میں، پچیس نمازوں کے برابر ہے، اس کی نماز جامع مسجد میں، پانچ سو نمازوں کے برابر ہے،اس کی نماز مسجد اقصی میں، پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، (اسی طرح) اس کی نماز میری مسجد (مسجد نبوی) میں، پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور اسی شخص کی ایک نماز مسجد حرام میں، ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے”۔مسجد اقصی کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ اسی مسجد سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج ہوا۔ اسی سفر معراج میں آپ کو نماز کا تحفہ دیا گیا۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعدجب 15جولائی 1099ء کوعیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ پھر صلاح الدین ایوبی نے میں بیت المقدس کو فتح کیا تو مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے خرافات سے پاک کیا۔ 88 سالوں کے علاوہ، عہد فاروقی سے بیت المقدس اور مسجد اقصی مسلمانوں کے قبضے میں رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ آج پھر قدس اور مسجد اقصی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی قدس اور مسجد اقصی کو ان ظالم وجابر اور غاصب لوگوں کے قبضے سے آزاد کرادیاور فلسطینیوں کی قربانی بار آور ثابت ہو! آمین!۔ مسجد اقصیٰ اور غزہ پر حالیہ دہشت گردی کے واقعات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ صیہونی مملکت اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے منصوبوں پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا ہے ‘ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے قریب واقع شیخ جارح کے علاقہ سے فلسطینی باشندوں کو در بدر کرتے ہوئے وہاں یہودی آبادیاں بسانا چاہتا ہے اور اس کے ایک حصہ کے طور پر فلسطیی باشندوں کو ہراساں و خوفزدہ کیا جا رہا ہے جیسا کہ اس نے دیگر علاقوں کے ساتھ کیا۔اسرائیل انسانی حقوق و اقدار اور بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں پر مظالم کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
بین الاقوامی میڈیابھی اس حملہ کو جنگ قرار دے رہا ہے۔ مسلح سکیوریٹی فورسز کے حملوں اور جارحانہ کارروائیوں کو کس طرح جنگ قرار دیا جاسکتا ہے’ جبکہ فریق ثانی کے پاس سوائے پتھروں کے کچھ اور نہیں ہوتا۔غزہ میں اسرائیل کی ننگی جارحیت کا کھیل جاری ہے۔ وحشیانہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کی کئی بلند وبالا رہائشی عمارتیں زمیں بوس ہوگئی ہیں اور ان میں رہنے والے خاندان اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں میں اب تک 160 سے زیادہ بے گناہ شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ان میں اچھی خاصی تعدادعورتوں اوربچوں کی بھی ہے۔ غزہ میں اس وقت ایک ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہیں۔ اسرائیلی حملے میں غزہ کا ایک رفیوجی کیمپ تباہ ہوگیا جس میں ایک ہی خاندان کے دس افراد شہید ہوگئے ہیں۔ پانچ ماہ کا ایک شیرخوار بچہ ہی زندہ بچا ہے، جسے شدید زخمی حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں واقع عالمی میڈیا کی 13 منزلہ عمارت کو پوری طرح تباہ کردیا تاکہ غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت سے دنیا واقف نہ ہوسکے۔ اس عمارت میں الجزیرہ اور امریکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے بھی دفاتر تھے۔
اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک دس ہزار باشندے غزہ سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔اگراسرائیلی بہیمیت اسی طرح جاری رہی تو فلسطین میں انسانی المیہ گمبھیر صورت اختیار کر جائے گا اور ایک بڑی اور وسیع جنگ کے خطرات اور خدشات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس جارحیت کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو آگے آنا اور کردار ادا کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اسی ضرورت پر زور دیا۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے نہتے فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام مسلم ممالک کو مسئلہ فلسطین پر یکجا ہونا پڑے گا۔مشرقی بیت المقدس یہ وہ شہر ہے جسے اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے موقع سے قبضہ کرلیا تھا۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کئی بار یہ بات کہہ چکی ہے کہ مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے۔ وہاں یہودی آبادکاروں کو بسانا غیر قانونی اور جرم ہے۔ اسرائیل کے اس عمل سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھیں گے۔
ابھی حال ہی میں یورپ کے پانچ ممالک: فرانس، جرمنی، اسپین، اٹلی اور برطانیہ نے اپنے مشترکہ بیان میں اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ “وہ تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی توسیع کی پالیسی کو منجمد کرے۔” اب مشرقی بیت المقدس کے یہودی آبادکاروں نے اس شہر پر اسرائیلی قبضہ کو قوت بخشنے اور قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے قانونی جنگ چھیڑ دی ہے۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرئیلی عدالت سے فلسطینیوں کے حق میں فیصلے کا آنا تقریبا ناممکن ہے۔ مشرقی بیت المقدس کی حقیقت یہ ہے کہ یہاں “مسجد اقصی” واقع ہے۔ یہ مسجد مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ یہ شہر فلسطین کا اہم حصہ ہے۔ مشرقی بیت المقدس میں کے علاقہ “شیخ جراح” اورمسجد اقصی میں اپنی دہشت گردی کاروائی کے ساتھ ساتھ اب اسرائیل دہشت گرد فوجیوں نے غزہ کی پٹی پر بھی فضائی حملہ شروع کردیا ہے۔
فضائی حملے کے ساتھ ساتھ، غزہ کی سرحد پر بھی اسرائیل اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔ اس حملے میں اب تک حماس کے زیر استعمال عمارت، غزہ کی پٹی میں پولیس کمان کے صدر دفتر کی عمارتیں ، غزہ شہر کے وسط میں رہائشی عمارت الجوہرہ ٹاور اور کئی شہریوں کے مکانات کو نشانہ بناکر انھیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کئی سڑکیں بھی ٹوٹ گئیں ہیں۔ غزہ کی پٹی کیکئی خاندانوں نے اپنے مکانات چھوڑ کر، نقل مکانی شروع کردی ہے۔ اس دہشت گردانہ فضائی حملہ میں، غزہ کی وزارت صحت کی طرف سے جاری 12/مئی کی رپورٹ کے مطابق، اب تقریبا 43/ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں13/بچے اور تین خواتین بھی شامل ہیں۔ تقریبا 233/ فلسطینی شہری زخمی بھی بتائے جارہے ہیں۔ سیکڑوں معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو قید کرکے پس زنداں کردیا گیا۔ “غزہ کی پٹی” فلسطین کا وہ حصہ ہے جو بہت ہی زیادہ گنجان آبادی پر مشتمل ہے۔
ایک سروے کے مطابق غزہ پٹی کی موجودہ آبادی دو ملین سے زیادہ ہے۔ اسرائیلی بربریت پر ترک صدر طیب اردوان کا دلیرانہ رد عمل خوش آئند اور عالم اسلام کیلئے دعوت فکر ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے اسرائیلی اقدام پر یکساں اور ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرے۔طیب اردوان نے عالم اسلام پر واضح کردیا ہے کہ فلسطینیوں پر حملہ پورے عالم اسلام پر حملہ کے مترادف ہے، جس کا دشمن کو اسی انداز میں جواب دیا جاناچاہیے، جس انداز میں وہ ظلم ڈھا رہا ہے۔طیب اردوان نے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کی حالیہ کارروائی پر عالم اسلام نے بھرپور مزاحمت نہ کی تو فلسطینیوں کو تہہ و تیغ کرنے کے بعد اسرائیل کا رخ پہلے مدینہ اور پھر مکہ کی طرف ہوگا، تب کیا ہو گا، اس کا آج مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتے۔اس سلسلے میں پاکستان ،ایران ،ملائیشیا، انڈونیشیا ،بنگلہ دیش اور بالخصوص سعودی عرب سمیت تمام عرب ریاستوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم رکوانے اور فلسطینیوں کو صہیونی لابی کے پنجہ استبداد سے نجات دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے میدان عمل میں قدم رکھیں۔