جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیلی فلسطینی تنازعے پر یورپی وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے۔ تاہم اس اجلاس سے پہلے ہی یورپی یونین کے ستائیس ممالک میں تقسیم نظر آ رہی ہے۔ جانیے کونسا یورپی ملک کس کے ساتھ کھڑا ہے؟
اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین تازہ لڑائی کے حوالے سے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس آج ہو رہا ہے۔ اس اجلاس سے قبل ہی یورپی یونین کے طاقتور ملک جرمنی کے وزیر خارجہ نے فوری جنگ بندی کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے لیے اضافی مالی امداد کا مطالبہ کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق آج کے اجلاس میں یورپی یونین کے ستائیس ممالک میں واضح تقسیم نظر آئے گی۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اور اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بوریل فلسطین اسرائیل تنازعے کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ سفارت کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ یورپی ممالک کی منقسم رائے مشرق وسطیٰ میں یورپی یونین کے کردار کو مزید محدود بنا دے گی۔
اس اجلاس سے پہلے ایک ویڈیو پیغام میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے، ”ہماری پہلی ترجیح تشدد کا خاتمہ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”آج میں غزہ میں انسانی امداد کی بہتر فراہمی کی لابی کروں گا۔‘‘ جرمن وزیر خارجہ نے غزہ میں عام شہریوں کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر چالیس ملین یورو کی امداد جمع کرنے کی اپیل کی ہے۔
یورپی یونین اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر جبکہ فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ڈونر بھی ہے۔ یورپی یونین ایسے اقدامات سے گریز کرتی آئی ہے، جن کے تحت اسرائیل پر ممکنہ اقتصادی پابندیاں عائد ہو سکیں۔ مشرق وسطیٰ تنازعے میں یورپی یونین ہمیشہ ‘بیک سیٹ‘ پر ہی رہی ہے جبکہ سیاسی حل کے لیے ہمیشہ امریکا کو ہی قائدانہ کردار دیا گیا ہے۔
یورپی سفارت کار اس پر بھی تنقید کر رہے ہیں کہ یورپی یونین کی طرف سے ہنگامی ویڈیو اجلاس کا انعقاد بھی تاخیر سے ہو رہا ہے، یہاں تک کہ یورپی یونین کو اس حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا تھا۔ ایک سینیئر یورپی سفارت کار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”اس طرح کا کمزور جواب حوصلہ افزا نہیں۔‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یورپی یونین کے ستائیس ممالک کی ہمدردیاں منقسم ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یورپی یونین کے کم از کم بھی آٹھ ممالک فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں بیلجیم، آئرلینڈ، مالٹا، لکسمبرگ اور فن لینڈ بھی شامل ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے یورپی یونین کو فلسطینیوں کی مزید حمایت کرنی چاہیے۔ یہ ممالک ماضی میں بھی فلسطینیوں کے حق میں بیانات دیتے آئے ہیں۔
دوسری جانب یورپی یونین کے کئی ممالک اسرائیلی مفادات کی کھلی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں ہنگری، جمہوریہ چیک، آسٹریا، یونان، قبرص اور پولینڈ پیش پیش ہیں۔ آسٹریا نے تو اسرائیل سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جمعے کے روز ویانا میں فیڈرل چانسلری پر اسرائیل کا پرچم بھی لہرایا۔
جرمنی یورپی یونین کا ایک طاقتور ملک ہے لیکن دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کی قتل عام اور نازی جرائم کی وجہ سے یہ ابھی تک خود کو قصوروار سمجھتا ہے اور نازی جرائم کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی نے کبھی بھی اسرائیل مخالف اقدامات کی حمایت نہیں کی۔
قبرص کی وزارت خارجہ نے اس وقت یورپی یونین میں پائے جانے والے سفارتی تعطل پر مایوسی کا ظہار کیا ہے۔ قبرص کے وزیر خارجہ نیکوس کرسٹوڈولڈیس کا کہنا تھا، ”یورپی یونین کو ابھی قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے لیکن اس کا یہ کردار نہیں ہے۔ ایسا یا تو یورپی یونین کے ممالک میں اختلافات کی وجہ سے ہے یا اس وجہ سے کہ برسلز کے پاس کوئی مشترکہ حکمت عملی ہی نہیں ہے۔‘‘
تاہم فرانسیسی صدر ایمانوئیل ماکروں نے پیر کے روز کہا ہے کہ وہ مصر اور اردن کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ جنگ بندی کے لیے حتمی تجویز پیش کی جا سکے، جو اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مذاکرات کا راستہ بھی ہموار کرے۔