بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بین الاقوامی میڈیا وزیر اعظم نریندر مودی کو کورونا سے نمٹنے میں ناکام قرار دیتے ہوئے ان کے طریقہ کار کی بھی سخت نکتہ چینی کرتا رہا ہے۔ اب مودی حکومت اپنی ساکھ کو بہتر کرنے کے لیے ایک ٹی وی چینل کھولنا چاہتی ہے۔
مودی حکومت نے داخلی اور عالمی اہم امور پر دنیا بھر میں بھارت کے نکتہ نظر کو پیش کرنے کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے بین الاقوامی میڈیا چینلوں کے طرز پر سرکاری نشریاتی ادارے دور درشن (ڈی ڈی)کا’ڈی ڈی انٹرنیشنل‘کے نام سے ایک نیا چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومتی ادارے پرسار بھارتی نے گزشتہ ہفتے ایک ٹنڈر نوٹس جاری کرکے”ڈی ڈی انٹرنیشنل قائم کرنے کے لیے” نجی کمپنیوں کو تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ پیش کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس نوٹس میں کہا گیا ہے کہ دور درشن کو عالمی سطح پر لے جانے اور بھارت کا موقف بین الاقوامی سطح پر پہنچانے کی خاطر بی بی سی کی طرز پر ڈی ڈی انٹرنیشنل قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاکہ بھارت کا ‘معتبر، جامع اور حقیقی‘امیج دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب مودی حکومت اور بھارت کو بالخصوص کورونا وبا سے مناسب طریقے پر نہیں نمٹنے اور اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم پرسار بھارتی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہا کہ اس ٹی وی چینل کو شروع کرنے کا فیصلہ اچانک نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ تجویز ایک عرصے سے زیر غور تھی۔
بین الاقوامی میڈیا جس طرح مسلسل خبریں دے رہا ہے اس سے مودی حکومت کافی پریشان ہو گئی ہے۔
پرسار بھارتی کے سابق چیئرمین اور ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس اور بی جے پی کے سینیئر رہنماؤں کے ساتھ کام کرنے والے صحافی اے سوریا پرکاش کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت بھی میڈیا کے شعبے میں دیگر ملکوں کی طرح بڑھ چڑھ کر کام کرے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب بھارت کا بھی اپنا ایک بین الاقوامی میڈیا بازو ہو اور اس کا بیورو اور اس کے نامہ نگار دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی موجود ہوں۔
سوریا پرکاش کا کہنا تھا”جس طرح بی بی سی، سی این این یا ڈی ڈبلیو بھارت سے متعلق خبریں دیتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ ہم بھی دنیا بھر میں ہونے والے واقعات کو کور کریں۔”
پرسار بھارتی کے چیئرمین کے طور پر سوریا پرکاش اس کمیٹی کے سربراہ تھے جس نے ”غیر ملکی پریس کے جانبدارانہ رویے‘‘ کا بھارت کی طرف سے جواب دینے کے لیے اطلاعات و نشریات کی وزارت کو ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا، ”میں (ڈی ڈی انٹرنیشنل بنانے کے) حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔بھارت کے پاس ایک اعلی معیار کا میڈیا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جو نہ صرف بھارت کی آواز کو عالمی سطح پر پیش کر سکے بلکہ دنیا میں ہونے والے واقعات پر ناقدانہ نگاہ بھی ڈال سکے اور بھارتی ناظرین کو دنیا کے دیگر حصوں میں ہونے والے واقعات سے آگاہ بھی کر سکے۔”
ایک عالمی رہنما کے طور پر نہ صرف مودی کا امیج متاثر ہوا ہے بلکہ دنیا میں بھارت کا اعتبار بھی کم ہوا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں،اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک، مذہبی اور لسانی اقلیتوں نیز قبائلیوں کے خلاف حکومتی کارروائی، لنچنگ یا سر عام تشدد کے واقعات، حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں، کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف قانونی کارروائیوں وغیرہ نیز حالیہ ہفتوں کے دوران کورونا کی بحرانی کیفیت کے سلسلے میں بین الاقوامی میڈیا جس طرح مسلسل خبریں دے رہا ہے اس سے حکومت کافی پریشان ہو گئی ہے۔
مارچ میں جب امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس نے اپنے فریڈم انڈیکس میں بھارت کی رینکنگ گھٹا کر اسے ‘جزوی آزاد‘ ملک کے زمرے میں ڈال دیا تھا تو مودی حکومت گھبرا گئی تھی۔حکومت نے اس کی تردید بھی جاری کی تھی۔ اس کے چند ہی دنوں بعد سویڈن کے و ی ڈیم انسٹی ٹیوٹ نے میڈیا کو ‘کچلنے‘ اور بغاوت کے قوانین کا بے جا اور غیر ضروری استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کو ‘دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ کے درجہ کو کم کرتے ہوئے اسے ایک’منتخب آمریت‘ قرار دیا تھا۔ دو روز قبل ہی برطانوی اخبار’دی گارجین‘نے اتر پردیش کے بارہ بنکی میں ایک سو سالہ قدیم مسجد کو منہدم کرنے کی خبر شائع کی تھی جبکہ بیشتر بھارتی میڈیا نے اس خبر کو نظر انداز کر دیا تھا۔
مودی حکومت غیر ملکی میڈیا میں بھارت کے متعلق شائع اور نشر ہونے والی اس طرح کی’منفی خبروں‘ اور نکتہ چینی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عرصے سے غور کر رہی تھی کیونکہ اسے لگتا ہے کہ ان خبروں کی وجہ سے ایک عالمی رہنما کے طور پر نہ صرف مودی کا امیج متاثر ہوا ہے بلکہ دنیا میں بھارت کا اعتبار بھی کم ہوا ہے۔
پرسار بھارتی کے سی ای او ششی شیکھر ویم پتی نے ڈی ڈی انٹرنیشنل کے قیام کے حوالے سے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”یہ ایسی چیز ہے جس کی ایک عرصے سے ضرورت تھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ دور درشن بھی بین الاقوامی سطح پر نظر آئے۔”
ششی شیکھر نے اس فیصلے کو ‘سب کے لیے نعمت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ چینل کی حقیقی شکل کیا ہو گی اور اس پر کتنی لاگت آئے گی یہ مکمل خاکہ تیار ہونے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔ انہوں نے تاہم کہا،”اس کی شکل بڑی حد تک بی بی سی یا الجزیرہ جیسی ہو گی۔ ابتدامیں بی بی سی ورلڈ سروس کی طرح خبروں پر زیادہ زور دیا جائے گا لیکن بعد میں اسے وسعت دی جائے گی کیونکہ دنیا کو بھارتی ثقافت سے بھی خاصی دلچسپی ہے۔