دنیا میں مذاہب کے نام پر جنگوں کو سمجھے بغیر اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو سمجھنا انتہائی دشوار ہو گا۔یہودیت نے اس کرہ ِ ارض پر ہمیشہ اپنی سفاکانہ کاروائیوں سے طوفان برپا کئے رکھے ہیں۔غیر یہودی ہونا اس کرہِ ارض پر سب سے بڑا جرم گردانا جاتا ہے اور اس جرم کی سزا ایسی اقوام کے خلاف جارحانہ اقدامات،قتل و غارت گری اور عالمی سازشوں سے انھیں زیرِ نگین کرنا ہے ۔خدا کے بر گزید ہ نبی حضرت عیسی علیہ السلام کا سب سے بڑا جرم یہی تھا کہ ان کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا ۔حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف یہودی سازش کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔انھیں سولی پرچڑھانے کی سزایہودیوں کے ایماء پر دی گئی تھی۔ یہ الگ بات کہ اللہ تعالی نے انھیں ان کے چنگل سے بچا کر زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔عیسائیت اور یہودیت کے درمیان جنگوں سے تاریخِ عالم کے صفحات بھرے پڑے ہیں جن میں بڑی بے دردی سے انسانیت کا خون بہایا گیا ۔بخت نصر کے ہاتھوں اپنی تباہی اور بربادی کے بعد یہودیوں کو کہیں بھی جائے آمان نہ مل سکی تو وہ پوری دنیا میں بکھر گے ۔بخت نصر کے قتلِ عام کے بعد کچھ گروہ حجاز کے علاقہ میں مقیم ہوگے۔ اپنے جدِ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے کے ناطے حجاز میں ان کی موجودگی کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
یہودیوں کی زیادہ آبادی مکہ اور مدینہ کے اطراف میں تھی جس میں خیبر کو خاص شہرت حاصل تھی ۔اسلام کا ظہور یہودیت کیلئے سب سے بڑا صدمہ تھا ۔ وہ کسی غیر اسرائیلی کو مسندِ نبوت پر سرفراز دیکھنا برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔ اسی متعصبانہ سوچ نے اسلام کے خلاف ان کی ریشہ دوانیوں کو ہوا دی ۔ ،۔
خاتم النبین حضرت محمد مصطفے ۖ کی نبوت یہودیو ں کے سارے ارمانوں پر اوس گرانے کے مترادف تھی ۔یہ ان کیلئے ناقابلِ یقین تھا کہ بنو اسماعیل کے گھرانے سے ایک صادق و امین بندہ بنوت سے سرفراز ہو جائے اور سارا عرب اس کے زیرِ نگین ہو جائے۔یہودیوں کی محلاتی سازشوں سے مسلمانوں کو جو زک پہنچی وہ ناقابلِ بیان ہے۔اسی لئے اللہ تعالی نے یہودو نصاری کی دوستی سے منع فرمایا ہے۔دولت مندی اور ثروت مندی ان کی ساری سازشوں کی بنیادہوا کرتی تھی۔وہ چونکہ معاشرے کے با اثر افراد تھے لہذا ان کیلئے لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنا او رکسی مخصوص طبقے کے خلاف فضا سازگار بنانا انتہائی آسان ہوتا تھا ۔اسلام کے ابتدائی ایام میں ان کی سازشوں کا گڑھ مدینہ منورہ تھا ۔مدینہ منورہ میں عبداللہ بن ابی کی امارت یہودیت کے اثر کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے ۔ اہلِ مکہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا ان کا شیوہ تھا۔
وہ مشرکینِ مکہ کو مدینہ منورہ کی خبریں دینے کے ساتھ ساتھ ان کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے تا کہ نبوت کی شمع کسی طرح سے گل کر دی جائے (نعوذ باللہ) اور یہودیت کی نسلی برتری پر کوئی آنچ نہ آسکے ۔شائدیہودی بھول چکے تھے کہ جس شمع کی حفاظت کا اعلان خود مالکِ ارض و سماء نے کیا ہو اسے کوئی کیسے گزند پہنچا سکتا ہے؟اعلانِ خداوندی ہے کہ ہم نے آپ کا ذ کر بلند کر دیا ہے۔(رفعنا لاک ذکرک ) در اصل پوری انسانیت میں سرکارِ دو عالمۖ کی نبوت کی سرفرازی کا علان تھا۔یہ اعلان کسی مخصوص وقت،گروہ،خاندان،نسل ،زبان،رنگ اور علاقہ کیلئے نہیں تھا بلکہ اس کا محور پوری انسانیت تھی۔اس میں گوروں اور کالوں کی بھی کوئی تمیز نہیں تھی۔پوری کاینات میں ہر بشر نے ایک دن اسی پیغام کا پیرو کار بننا تھا لیکن اتنی چھوٹی سی بات یہودیوں کے ذہنِ نارسا میں سما نہ سکی کہ یہ معاملہ بنو اسماعیل کا نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ محبوبِ خدا اور خدا کے درمیان ہے۔ اور جب محبوب اور محب ایک ہو جائیں تو پھر پوری کائنات خود بخود جھک جایا کرتی ہے۔نسلی تفاخر کے زہر نے یہودیوں کو اسلام دشمنی میں اندھا کررکھا ہے لہذا ان کا ہدف مسلمان ہیں۔
اسلام نے یہودیت کے ساتھ مفاہمانہ رویہ اپنانے کی بڑی کوششیںکیں جو کہ بار آور ثابت نہ ہو سکیں کیونکہ جن کے باطن میں حباثت کا زہر بھرا ہو وہ کسی بھی رو رعائت سے راہِ راست پر نہیں آ سکتے۔کج ر وی ہمیشہ کج روی ہی رہتی ہے اور ایسی کج روی کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پوری انسانیت کو ہلاکت انگیزیوں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔یہودیوں کے مذموم مقاصد کا انجام فتح خیبر پر ہوا لیکن بد قسمتی سے یہودیوں کی سازشیں کسی نہ کسی انداز میں آج بھی جاری و ساری ہیں۔دنیا کے موجودہ نا خدائوں( امریکہ ، انگلستان،فرانس) نے یہودی آبادکاری کیلئے عربوں کے دل فلسطین کا انتخاب کیا تا کہ اسلام اور یہودیت ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہیں ۔ ان کی سازشیں رنگ لائیں اور اسرا ئیل کے نام سے یہودی ریاست دنیا کے نقشہ پر ظہور پذیر ہوئی جس کا واحد ایجنڈا مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی تذلیل کرنا اور انھیں اپنے پنجہِ استبداد میں جکڑناہے ۔عیسائیت اور یہودیت جو کسی زمانے میں ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے آج مسلمان دشمنی میں یک جان دو قالب بنے ہو ئے ہیں۔یہودی آج بھی دولت مندی کی علامت ہیں ، وہ متمول قوم ہیں لہذا امریکہ اور یورپ ان سے دشمنی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔ دنیا کا مالی نظام اور میڈیا یہودیوں کی مٹھی میں بند ہے لہذا وہ دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچا رہے ہیںتبھی تو امریکہ یہودیوں کی زبان بول رہاہے۔مسلم امہ کو جھکانے کیلئے اسرائیل کا قیام عالمی سازش تھی اور اس سازش کے سرغنہ امریکہ اور اہلِ یورپ تھے۔ایک صحرا نورد،بے گھر اور خانہ بدوش قوم کو بزورِ قوت ایک علاقہ اور سرزمین عطا کی گئی تا کہ مسلمان اس کے زیرِ نگین رہیں۔١٩٤٨ ہی وہ سال ہے جس میں یہ گھنائونا کھیل کھیلا گیا۔ فلسطین کے اصلی وارثوں کو بزورِ قوت بے دخل کیا گیا اور ایک ناجائز اسرائیلی بچے کی پیدائش کا اعلان کیا گیا۔،۔
اس عالمی سازش میں غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی غداریوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔فلسطین کا مسئلے پچھلی سات دہائیوں سے عالمی امن کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے لیکن اس کے باجود عالمی طاقتیں اس مسئلہ کا کوئی بھی منصفانہ حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔وہ جھنوں نے عالمی تنازعات کو پیدا کیا تھا خود اس تنازعہ کا حل کیسے پیش کرسکتے ہیں؟ انگلستان کی اشیر واد سے جنم لینے والے اسرائیل کی پیدائش پہلے دن سے ہی متنازعہ تھی اور سدا متنازعہ رہے گی ۔کسی کی سرزمین پر بزورِ قوت قبضہ کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے ؟ ایک ناجائز بچہ کیسے جائز قرار پا سکتا ہے؟امریکہ،انگلستان اور فرانس کی سر پرستی اسے جائزقرار نہیں دلوا سکتی ۔ آج طاقت صہونیت کے ہاتھوں میں مرتکز ہے تو اسرائیل کے حوصلے بلند ہیں لیکن جس دن طاقت کا توازن بدلے گا تو سارا منظر بدل جائیگا ۔ اس عالمِ رنگ و بو میں کسی کی سدا بادشاہی نہیں رہی ۔کل کے حکمران آج محکوم ہیں اور ایک دن آئیگا جب آج کے حکمران محکوم ہوں گے ۔ سلطنتِ رومہ ، سلطنتِ عثمانیہ ،ساسانی ،سلجوقی ،تورانی ،سویت یونین اور ہسپانوی اقتدار قائم نہیں رہا تو امریکہ اورانگلستان کا اقتدار بھی ایک دن ہوا میں تحلیل ہو جائیگا اورجس دن ان کے دن پورے ہوگے اس دن ان کی املاک اور محلوں پر ان کے حریفوں کا قبضہ ہو جائیگا ۔ قرآن نے اس سچ کو بار بار اپنے صفحات میںدہرایا ہے لیکن زعمائے ریاست اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔
جب سطوتِ دائودی اور دبدبہِ سلیمانی بھی تاریخ کا حصہ بن جائے تو سمجھ لو اس کا ئینات میں کچھ بھی ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے۔تاریخ کے پنے ایک دفعہ پھر سیاسی ابتری کی نشاندہی کرر ہے ہیں ۔یہ سچ ہے کہ غنیم کمزور ہے اور اس کرہِ ارض پر اپنے پنجے گاڑھنے والے جابر طاقت ور ہیں لہذا وہ سب پر اپنی مرضی تھوپنا چاہتے ہیں ۔وہ طاقت سے ہر معاملہ کا حل چاہتے ہیں لیکن ایسے تنازعات حل نہیں ہوا کرتے۔کمزور آوازیں بھی کبھی کبھی محیرا لعقول نتائج پیدا کر دیتی ہیں ۔ صبر، برداشت ، استقامت ،جوانمردی،بہادری ،جانبازی،قربانی اور سرفروشی ہی وہ جوہرِ حقیقی ہے جو معمولوں کے ہاتھوں شہبازوں کی موت کاباعث بنتا ہے اور یہی تاریخ کا سب سے بڑا سچ ہے۔اسرائیل اس سچ کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے تبھی تو وہ فلسطینیوں پر ظلم و جبر کے پہاٹ توڑ رہا ہے لیکن اسے ایک دن اس کا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔،۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال۔۔