بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بدھ 26 مئی کو کسانوں کی جانب سے ملک گیر ‘یوم سیاہ‘ کی کانگریس سمیت بارہ اپوزیشن جماعتوں نے حمایت کی ہے۔اس دن متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف بھارتی کسانوں کی تحریک کے چھ ماہ مکمل ہو رہے ہیں۔
بھارت میں کورونا وائرس، انتہائی سردی، شدید بارش اور طرح طرح کی مشکلات کے باوجود ہزاروں کسان گزشتہ کئی ماہ سے اب بھی قومی دارالحکومت دہلی کی سرحدوں پر موجود ہیں۔اس دوران تقریباً چار سو کسانوں کی موت ہو چکی ہے لیکن انہوں نے اپنے احتجاج کو مزید تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔
آل انڈیا کسان سبھا کے قومی جنرل سکریٹری اتول کمار انجان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں سے ہزاروں کسان 26مئی کو دہلی کے دروازے پر دستک دینے کے لیے پہنچ رہے ہیں،
انہوں نے کہا ” 26مئی کو کسانو ں کی تاریخی اور شاندار جدوجہد کے چھ ماہ مکمل ہو رہے ہیں۔ اب تک 475 سے زائد کسان اپنی جان کی قربانی دے چکے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کی رہنمائی میں بی جے پی کی مرکزی حکومت کی تمام تر ‘ظالمانہ‘ کارروائیوں اور پھوٹ ڈالنے کے ہتھکنڈوں کے باوجود کسانوں کی تحریک مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اور کسانوں نے تینوں زرعی قوانین واپس لینے تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کر رکھا ہے۔ کیونکہ ہمیں اپنی کامیابی پر پورا یقین ہے۔”
اتول کمار انجان کا مزید کہنا تھا کہ 26 مئی کو ہی نریندر مود ی بھارتی وزیر اعظم کے طورپر سات سال مکمل کریں گے۔انہوں نے 26 مئی سن 2014 ء کو پہلی مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا،”یہ گزشتہ سات برسوں کے دوران مزدوروں، کسانوں، بے روزگار نوجوانوں، خواتین اور طلبہ کے لیے تاریک دور رہا ہے۔” انہوں نے کہا ”اس دوران بھارت نے بی جے پی حکومت کا غیر انسانی اور عوام دشمن چہرہ دیکھا ہے۔ یہ ایک ایسی حکومت ہے جس نے عوام کے مفادات کے خلاف اور کارپوریٹ کمپنیوں کے فائدے کے لیے کھلے عام اقدامات کیے ہیں۔”
آل انڈیا کسان سبھا کے رہنما نے کہا کہ 26 مئی کو کسان کووڈ پروٹوکول کا پورا پورا خیال رکھتے ہوئے اپنے مطالبات پر زور دینے کے لیے ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ اپنی مہم کو آگے بڑھانے کا عزم کریں گے۔
بارہ اپوزیشن جماعتوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کر کے کسانوں کی طرف سے 26 مئی کو ‘یوم سیاہ‘ منانے کے فیصلے کی تائید کی اور مکمل حمایت دینے کا اعلان کیا ہے۔
اس بیان پر کانگریس کی سونیا گاندھی، جنتا دل سیکولر کے رہنما ایچ ڈی دیوے گوڑا، ترنمول کانگریس کی ممتا بنرجی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے شرد پوار، شیو سینا کے اودھو ٹھاکرے، سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو، آر جے ڈی کے تیجسوی یادو، بائیں بازو کے رہنما ڈی راجہ اور سیتا رام یچوری اور فاروق عبداللہ کے بھی دستخط ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے،”ہم کسانوں کی پرامن تحریک کے چھ ماہ مکمل ہونے پر 26 مئی کو ملک گیر یوم سیاہ منانے کے کسانوں کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت کو اپنا سخت رویہ چھوڑ کر کسانوں سے بات شروع کرنی چاہیے۔” بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”ہم نے بارہ مئی کو مشترکہ طور پر وزیر اعظم کو ایک خط لکھ کر کہا تھا کہ کورونا وبا سے متاثر لاکھوں کسانوں کو بچانے کے لیے زرعی قوانین منسوخ کیے جائیں تاکہ کسان اپنی فصلیں اگا کر بھارتی عوام کا پیٹ بھر سکیں۔”
متنازعہ زرعی قوانین کے مسئلے پر کسانوں کی مختلف تنظیموں کے چالیس رہنماؤں اور حکومت کے درمیان اب تک گیارہ دور کی بات چیت ہو چکی ہے تاہم تعطل اب تک برقرار ہے۔ کسان اب بھی دارالحکومت دہلی میں داخل ہونے والی کئی سرحدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
کسانوں اور حکومت کے درمیان آخری مرتبہ 22 جنوری کو بات چیت ہوئی تھی جس میں حکومت نے متنازعہ قوانین کو 18 ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی پیش کش کی تھی لیکن کسانوں نے اسے مسترد کر دیا تھا۔
کسانوں کی مشترکہ تنظیم سمیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے مذاکرات بحال کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی کو جمعے کے روز ایک خط ارسال کیا ہے۔
ایس کے ایم کے رہنما گورنام سنگھ چارونی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 26 مئی کے پروگرام سے نہ صرف کسانوں کی تحریک کو ایک نئی طاقت ملے گی بلکہ جو لوگ یہ دعوی کررہے ہیں کہ دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کرنے والے کسانوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہیں ان تمام لوگوں کویہ واضح پیغام مل جائے گا کہ کسان اب بھی پوری طرح متحد ہیں۔
گورنام سنگھ نے دہلی کے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے لیے آنے والے کسانوں کے خلاف ہریانہ پولیس کی کارروائیوں کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا،”کسانوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے اور پولیس ان کے خلاف مقدمات درج کر رہی ہے لیکن ان پولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جارہی ہے جنہوں نے خواتین کسانوں کے ساتھ بدتمیزی کی اور ہماری گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی۔”
کسانوں کے ملک گیر ‘یوم سیاہ‘ اور دہلی کی سرحدوں پر ان کی آمد کے مدنظر ہریانہ، پنجاب، اترپردیش اور دہلی کی حکومتوں کے علاوہ مرکزی حکومت نے بھی سکیورٹی انتظامات بڑھا دیے ہیں۔