بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) حکومت نے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے لیے نئے ضابطوں پر عمل درآمد کی خاطر تین ماہ قبل مقرر کی گئی مدت 25 مئی منگل کو ختم ہو رہی ہے۔ نئے ضابطے 26 مئی سے نافذالعمل ہو جائیں گے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق فیس بک، ٹوئٹر جیسے اب تک کسی بھی بڑی غیر ملکی سوشل میڈیا کمپنی نے حکومت کی نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔ صرف ایک بھارتی کمپنی کا جواب موصول ہوا ہے۔
بھارت میں حکومت نے فیس بک، ٹوئٹر اور اس جیسے دیگر بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے لیے ایک نئے قانون کے تحت ضابطوں پر عمل درآمد کے حوالے سے 25 فروری کو نوٹس جاری کرکے تین ماہ کے اندر اپنا جواب دینے کی ہدایت کی تھی۔ اور ایسا نہ کرنے پر ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دینے کی دھمکی دی تھی۔مقررہ مدت منگل 25 مئی کو ختم ہو رہی ہے لیکن اب تک صرف ایک بھارتی کمپنی کوو (KOO) کا جواب موصول ہوا ہے۔
بعض بھارتی میڈیا نے تاہم دعوی کیا ہے کہ انہیں آج سہ پہر فیس بک کے ایک ترجمان کا بیان موصول ہوا ہے، جس میں اس امریکی کمپنی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون پر عمل کرنے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ بعض امور پر غورو خوض کر رہی ہے نیز اس کے لیے حکومت کے ساتھ مزید تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔
فیس بک کے ترجمان کا کہنا تھا،”فیس بک لوگوں کی آزادانہ اور محفوظ اظہار رائے کے تئیں اپنے عہد پر قائم ہے۔کمپنی اپنے آپریشنل پروسیس کو نافذ کرنے اور صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر کام کر رہی ہے۔”
فیس بک کے علاوہ انسٹاگرام اور واٹس ایپ بھی اسی کمپنی کی ملکیت ہیں۔ نئے ضابطوں کا اثر پچاس ہزار سے زائد صارفین والے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ہو گا۔
بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے مطابق 21 فروری سن 2021 تک ملک میں واٹس ایپ استعمال کرنے والوں کی تعداد 53 کروڑ، یو ٹیوب کے صارفین کی تعداد 44کروڑ 80 لاکھ، فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد 41کروڑ، انسٹاگرام استعمال کرنے والوں کی تعداد21 کروڑ اور ٹوئٹر استعمال کرنے والوں کی تعداد 17 کروڑ پچاس لاکھ تھی۔
حالیہ عرصے میں مودی حکومت نیز حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے درمیان ناراضگی کئی مواقع پر کھل کر سامنے آ چکی ہے۔
بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر جیسی امریکی سوشل میڈیا کمپنیاں بھارت میں جمہوریت نیز صارفین کی بہت بڑی تعداد کی وجہ سے کافی منافع کماتی ہیں لیکن وہ بھارتی قانون پر عمل کرنے سے دور بھاگتی ہیں اور جب بھی کسی معاملے پر ان کے افسران سے جواب طلبی کی جاتی ہے تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے،”وہ امریکا میں کمپنی کے ہیڈ کوارٹر کی ہدایت کے منتظر ہیں۔ اگر جواب مل بھی جاتا ہے تو یہ ان کے اپنے ماہرین کے تجزیے پر مشتمل ہوتا ہے۔”
بی جے پی کے رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان سوشل میڈیاپلیٹ فارموں میں اپنے فیکٹ چیکنگ میکینزم اور ٹوئٹس کے لیبل طے کرنے کے حوالے سے بھی شفافیت نہیں ہیں۔
مودی حکومت نے ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ کے حوالے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ضابطوں کو 25 فروری کو نوٹیفائی کیا تھا۔ اس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ ”غیر قانونی” پیغامات پھیلانے والے’اصل فرد‘ کی نشاندہی کریں۔ ایک مقررہ وقت کے اندر ایسے پیغامات کو ہٹائیں، شکایتوں کے ازالے کا طریقہ کار تیار کریں اور حکومتی تفتیشی ایجنسیوں کی مدد کریں۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھارت میں اپنے افسران کے نام، پتے اور ان کی دیگر تفصیلات فراہم کرنے کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔ ان کمپنیوں کو ماہانہ رپورٹ دینی ہو گی اور یہ بتانا ہو گا کہ کتنی شکایتیں موصول ہوئیں اور ان میں سے کتنی شکایتوں کا ازالہ کیا گیا۔
اس دوران ایک ایسی کمیٹی بھی قائم کی جائے گی جس میں وزارت دفاع، خارجہ، داخلہ، اطلاعات و نشریات، قانون، انفارمیشن ٹیکنالوجی، خواتین اور بہبود اطفال کے افسران شامل ہوں گے اور کمیٹی کو ضابطوں کی خلاف ورزی کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان ضابطوں کے نفاذ سے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہو گا۔مثلاً سوشل میڈیا کو حکم دیا جائے گا کہ 36گھنٹے کے اندر مواد کو واپس لے لے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ان ضابطوں سے انفرادی رازداری کو بھی خطرہ لاحق ہو گا۔
انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن نامی ایڈوکیسی گروپ کا کہنا ہے گو کہ بڑی کمپنیوں کو ضابطے کے تحت لانے کی ضرورت ہے لیکن حکومت نے جو نئے ضابطے بنائے ہیں، ان سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ بنیادی مقصد کو مزید نقصان پہنچے گا۔