ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران میں جن سات امیدواروں کوآئندہ ماہ صدارتی انتخابات لڑنے کی منظوری دی گئی ہے اس میں سابق صدر احمدی نژاد کا نام شامل نہیں ہے۔ انتخاب میں مقابلہ قدامت پسندوں کے درمیان ہو گا۔
ایران کی شورائے نگہبان یا ‘گارڈیئن کونسل’ نے آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے سات امیدوارں کے ناموں کو منگل 25 مئی کو منظوری دے دی۔ ان میں ایک سب سے قدامت پسند اور پسندیدہ امیدوار سپریم کورٹ کے جج ابراہیم رئیسی بھی ہیں۔
ابراہیم رئیسی کو سن 2017 کے انتخابات میں 38 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور انہیں صدر حسن روحانی نے شکست دے دی تھی۔ آئین کی رو سے کو ئی بھی امیدوار مسلسل تیسری بار صدارتی انتخاب نہیں لڑ سکتا اس لیے صدر روحانی اس بار اس دوڑ سے باہر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ابراہیم رئیسی ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای کے بھی پسندیدہ امیدوار ہیں۔
دیگر امیدواروں میں ایران کے جوہری پروگرام کے سابق مذاکرات کار سعید جلیلی، پاسداران انقلاب فورسز کے سابق کمانڈر محسن رضائی، سابق رکن پارلیمان علی رضا زاکانی، موجودہ رکن پارلیمان امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی، سابق ریاستی گورنر محسن مہر علی زادہ اور ایران کے مرکزی بینک کے موجودہ سربراہ عبد النّاصر ہمّتی کے نام شامل ہیں۔
کئی سر کردہ شخصیات کو گارڈیئن کونسل نے صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں دی۔ ان میں سابق صدر محمود احمدی نژاد کا نام سر فہرست ہے جو سن 2005 سے 2013 تک دو بار عہدہ صدارت پر فائز رہے اور کافی مقبول بھی تھے۔ انہوں نے اجازت نہ ملنے پر انتخابات کے بائیکاٹ کی بھی دھمکی دی تھی۔
پارلیمان کے سابق اسپیکر علی لاریجانی کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی۔جو عالمی برادری کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے کے بڑے حامیوں میں سے ہیں۔ انہوں نے ٹویٹر پر اس کی اطلاع دیتے اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امید ہے کہ آپ سب انتخابات میں شرکت کریں گے۔
صدارتی انتخابات لڑنے کے لیے تقریباً چھ سو افراد نے نام اندراج کرائے تھے۔ جس میں سے صرف 40 افراد ہی اس کے بنیادی اصولوں پر پورے اترے۔ گزشتہ انتخابات میں اس کے برعکس ڈیڑھ ہزار سے بھی زیادہ افراد نے اندراج کیا تھا۔
ابراہیم رئیسی بظاہر اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو انتخاب لڑنے کی اجازت نہ دینے سے نالاں بھی نظر آئے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”کل شام سے، جب مجھے نتائج سے متعلق آگاہ کیا گیا، میں نے رابطے کیے ہیں اور میں انتخابی منظر نامے کو زیادہ مسابقتی بنانے اور مزید امیدواروں کی شرکت کے لیے مشاورت کر رہا ہوں۔”
سیاسی مبصر فتح اللہ نژاد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ایران میں اس بار کے صدارتی انتخابات پہلے کے مقابلے میں، ”اور بھی زیادہ جعلی ہوں گے۔” ان کا کہنا ہے، ”پسند بہت ہی محدود ہو گئی ہے اور غالب امکان اس بات کا ہے کہ اگلا صدر مزید سخت گیر ہو گا۔”
ابراہیم رئیسی نے ہی منظور شدہ امیدواروں کے نام ٹی وی پر پڑھ کر سنائے جن کا سنہ 1988 میں عراق کے ساتھ ایران کی جنگ کے اختتام پر اجتماعی قتل عام اور پھانسیوں سے گہرا تعلق بتایا جاتا ہے۔ اس وقت رئیسی ڈپٹی پراسیکیوٹر ہوا کرتے تھے اور وہ بعض ایسی جیلوں کے پینل میں شامل ہوئے جن میں سیاسی قیدی بند تھے۔
ابراہیم رئیسی اور ان کے سربراہ آیت اللہ حسین علی منتظری کے درمیان ہونے والی بات چیت کی ایک ریکارڈنگ سن 2016 میں لیک ہوئی تھی جس میں منتظری نے بڑی تعداد میں ہونے والی ان پھانسیوں کو ایران کی تاریخ کا سب سے بڑا مجرمانہ فعل قرار دیا تھا۔
عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس دوران مخالف گروپ کے تقریباً پانچ ہزار افراد کو پھانسی دی گئی تھی جبکہ ایک دیگر مخالف گروپ مجاہدین خلق کا کہنا ہے کہ 30 ہزار افراد کو پھانسی دی گئی تھی۔ حالانکہ ایران نے کبھی بھی ان پھانسیوں کو تسلیم نہیں کیا اور رئیسی نے بھی عوامی سطح پر اس میں اپنے کردار کو کبھی تسلیم بھی نہیں کیا۔