امریکہ (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ فلسطینیوں کے ساتھ اپنے روابط بہتر بنانے کے لیے یروشلم میں نہ صرف اپنے فلسطینی سفارت خانے کو دوبارہ بحال کرے گا بلکہ غزہ شہر کی تعمیر کے لیے مالی امداد بھی فراہم کرے گا۔
فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کے بعد انتھونی بلنکن نے اس معاہدے پر زور دیا جس کے تحت حماس اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازعہ کا خاتمہ ہوا ہے۔ لیکن انھوں نےاس بات پر بھی زور دیا کہ وہ اس سے حماس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے دیں گے۔
اس سے قبل انھوں نے اسرائیل کو امریکہ کی طرف سے دی جانے والی ‘مکمل حفاظت’ کی بھی یقین دہانی کروائی۔
یاد رہے کہ گذشتہ جمعے کو ختم ہونے والے اس خونی تنازعے میں 242 فلسطینیوں اور 13 اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔ گیارہ دن تک جاری رہنے والے اس تنازعے میں ثالثی کے لیے مصر نے اہم کردار ادا کیا۔
ان پرتشدد واقعات کی وجہ وہ کشیدگی بنی تھی جس میں مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آبادکاروں کے خلاف مقامی فلسطینی رہائشی احتجاج کر رہے تھے۔ یہ کشیدگی مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے چند فلسطینی خاندانوں کو بیدخل کرنے کے کوششوں کے بعد شروع ہوئی تھی۔
اسرائیل اور حماس میں کئی روز تک جاری رہنے والی کشیدگی کے 10 مئی کو باقاعدہ لڑائی کا آغاز ہوا تھا۔
امریکی سیکریٹری سٹیٹ انتھونی بلنکن نے مقبوضہ غرب اردن میں راماللہ کا دورہ کیا اور منگل کی شام کو فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔
انھوں نے کہا ‘میں یہاں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ امریکہ فسلطینی قیادت اور فلسطینیوں کے ساتھ اپنے تعلقات دوبارہ بحال کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو کہ دو طرفہ احترام پر قائم ہے۔’
اس نیوز کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ دو ریاستوں کا قیام ہی مشرق وسطیٰ میں جاری اس تنازعے کا طویل المدتی حل ہے۔
یار رہے کہ فسلطینی قیادت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ تمام تعلقات ختم کردیے تھے جب انھوں نے نہ صرف فلسطینیوں کے لیے سفارتی مشن کو 2019ء میں بند کر دیا تھا بلکہ فلسطینی اتھارٹی کے لیے امریکی امداد بھی روک دی تھی۔
صدر بائیڈن نے اس سال جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سفارتی مشن کو دوبارہ کھولنے اور امداد کو ایک بار پھر شروع کرنے کا وعدہ کیا۔
انتھونی بلنکن نے اس پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ یروشلم میں سفارتخانے کے دوبارے کھلنے سے امریکہ فسلطینیوں کے ساتھ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھائے گا اور انھیں امداد بھی فراہم کرے گا۔
سنہ 2019 تک یہ سفارتخانہ فلسطینی امور کی دیکھ بھال کرتا تھا لیکن صدر ٹرمپ نے اسے اسرائیل میں کھلنے والی ایک نئے مگر متنازع سفارت خانے کے ساتھ ضم کردیا جو کہ یروشلم میں قائم کیا گیا تھا اس قدم کی وجہ سے امریکی اور فلسطینی تعلقات شدید متاثر ہوئے۔
یروشلم میں امریکی قونصل خانہ جو 2019 سے قبل تک فلسطینی سفارت خانے کے طور پر کام کرتا تھا
ایک سینیئر فلسطینی حکام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پی ایل او کا جو آفس واشنگٹن میں بند کیا گیا تھا اسے دوبارہ کھولنے کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔
انتھونی بلنکن کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ بین الاقوامی برداری، اسرائیلی اور فلسطینی حکام کے ساتھ کام کر رہا ہے تاکہ غزہ میں امداد پہنچائی جا سکے۔
انھوں نے اعلان کیا کہ بائیڈن انتظامیہ فوری طور پر غزہ کے لیے 50 لاکھ ڈالر سے زیادہ کی رقم فراہم کرے گا جبکہ فلسطین میں اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی کے لیے تین کروڑ ڈالر کی رقم فراہم کرے گا۔
امریکہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ موجودہ انتظامیہ نے کانگریس کو مطلع کر دیا ہے کہ وہ رواں سال فلسطین کے لیے ساڑھے سات کروڑ ڈالر کی امداد مختص کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لیکن ساتھ ساتھ انتھونی بلنکن نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ غزہ پر کنٹرل رکھنے والے حماس کو اس امداد سے کوئی فائدہ نہ پہنچے۔
واضح رہے کہ امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ اور اسرائیل حماس کو دہشت گرد گروپ گردانتے ہیں۔
ملاقات میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ وہ امریکی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کے حق کی حمایت کی
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ نے اپنے تین روزہ مشرقِ وسطی کے دورے کا آغاز یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات کے ساتھ کیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ وہ امریکی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کے حق کی حمایت کی۔
‘ہم بھی اپنے دفاع کے حق کا عزم کرتے ہیں۔ اگر حماس امن کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا اور اسرائیل پر حملہ کرے گا تو ہمارا جواب انتہائی طاقتور ہوگا۔’
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی امریکی وزیر خارجہ سے اسرائیل کے میزائل شکن سسٹم آئرن ڈوم کو دوبارہ تیار کرنے کی بات ہوئی ہے۔ یہ سسٹم حماس کے اسرائیل پر داغے گئے راکٹوں کو روکتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی طرف سے پسِ پردہ کی گئی زبرست سفارتکاری نے دونوں فریقین کے مابین جنگ بندی کے معاہدے کو یقینی بنایا اور ہمیں اب اسے آگے لے کر چلنا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق پچاس سے زیادہ تعلیمی اداروں، چھ ہسپتالوں اور صحت کی صہولیات فراہم کرنے والے گیارہ اداروں کو بھی سخت نقصان پہنچا ہے
اقوامِ متحدہ نے فلسطین کی وزارتِ تعمیرات کے اعداد و شمار کا حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 258 عمارتیں اور 1042 رہائشی اور کاروباری تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں اور اس کے علاوہ 769 گھروں کو گہرا نقصان اور چودہ ہزار سے زائد گھروں کو معمولی نقصان پہنچا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق پچاس سے زیادہ تعلیمی اداروں، چھ ہسپتالوں اور صحت کی صہولیات فراہم کرنے والے گیارہ اداروں کو بھی سخت نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ پانی، صفائی اور بجلی کے نظام بھی تباہ ہوئے ہیں۔
فلسطینی حکام نے کہا ہے کہ تعمیرِ نو پر کروڑوں ڈالر کی لاگت آئے گی۔ اسرائیلی حکومت نے ابھی تک نقصانات کے بارے میں تفصیلات شائع نہیں کیں تاہم اسرائیل میں بہت سی عمارتوں اور گاڑیوں کو راکٹ فائر سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔