یونان (اصل میڈیا ڈیسک) یونان میں پناہ کے متلاشی افراد کو اکثر عدالتی حکم کے بغیر گرفتاریوں، غیر قانونی پُش بیکس، پولیس کی من مانی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین ان مظالم کی آزادانہ جانج پڑتال کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کورونا وبا پھوٹنے کے بعد سے یونان میں پناہ گزینوں کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ سن 2018 سے یونان میں پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والی کارکن برٹن ہوپ بارکر بتاتی ہیں کہ رفیوجی کیمپوں میں متعدد پناہ گزین قید ہیں یا پھر دوسری صورت میں ان کو زیرحراست رکھا گیا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کے پاس رہائشی دستاویزات موجود ہیں یا نہیں۔
چھبیس سالہ برٹن ہوپ بارکر سرحد پر پُرتشدد کارروائیوں کے نگراں نیٹ ورک (بی وی ایم این) سے منسلک ہیں۔ یہ غیر سرکاری تنظیم پورے بالکان خطے میں سرحدی علاقوں پر پناہ گزینوں کی صورت حال پر کڑی نگاہ رکھتی ہے اور وہاں پیش آنے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نوٹ کرتی ہے۔ بی وی ایم این کے مطابق یونان کے زمینی علاقے میں قائم چھ حراستی مراکز میں ‘منظم تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں‘ دیکھی جارہی ہیں۔
یونان میں پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر رہ رہی ہے۔ ریڈ لائٹ ایریا میں تھیسالونیکی ٹرین اسٹیشن کے گرد وہ پولیس کے خوف سے خالی مکانات اور ٹرینوں میں چھپتے رہتے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کو ڈر رہتا ہے کہ انہیں پولیس پکڑ کر واپس ترکی ملک بدر کردے گی۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے رضا نے بتایا کہ ان کے پاس یونان میں پناہ حاصل کرنے کی قانونی اجازت نامہ موجود ہے لیکن وہ پھر بھی چھپتے ہیں کیونکہ ‘پولیس بلاوجہ پکڑ لیتی ہے۔‘
تئیس سالہ رضا کے بقول، ”گزشتہ چار ماہ سے کام کی تلاش میں گھوم رہا ہوں لیکن کہیں بھی روزگار نہیں مل سکا۔‘‘ یونان میں سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہونے کے بعد بھی پناہ گزینوں کو نہ تو ملازمت ملتی ہے اور نہ ہی رہائش۔ تاہم پناہ گزینوں کو ملک بدری کے خوف کے ساتھ ساتھ ‘ڈیپورٹیشن سینٹر‘ ملک بدری کی جیل میں جانے کا ڈر ستاتا رہتا ہے۔
بی وی ایم این کے مطابق شمالی یونان میں واقع ملک بدری کی ایک جیل میں پناہ گزینوں کو کھانے کے لیے بہت کم مقدار میں خوراک دی جاتی ہے۔ ان کو کپڑے بھی نہیں دیے جاتے۔ ان کو زبانی بدسلوکی کے ساتھ ساتھ مارا پیٹا بھی جاتا ہے۔ اگر ان کی طرف سے جیل کے گارڈز کی بدسلوکیوں کے بارے میں شکایت کی جائے تو پولیس کے متعدد اہلکار زیر حراست افراد پر مزید جسمانی تشدد کرتے ہیں۔
ہوپ بارکر نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پناہ گزینوں کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کا یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یونانی اہلکاروں کے طریقہ کار اس سے بھی زیادہ ظالمانہ ہوتے ہیں۔ ملک بدری سے قبل جیل میں زیر حراست پناہ گزینوں نے بی وی ایم این کو بتایا کہ جیل کے اہلکار بجلی کے جھٹکے، پانی کے ذریعے اذیت اور جبری کپڑے اتروانے سے بھی بعض نہیں آتے۔ یہ مظالم سہنے والے ایک تارک وطن کے بقول، ”گھنٹوں تک بدسلوکی کی جاتی ہے، لوگوں کو سر کے بل گھسیٹا جاتا ہے۔ یہ کوئی معمولی پُش بیکس نہیں بلکہ تشدد کی انتہا ہے۔‘‘
یونان میں پناہ گزینوں کے ساتھ قانون کی مزید خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے تارکین وطن کی امدادی کارکن ہوپ بارکر کہتی ہیں کہ ایک ایسا آزاد طریقہ کار تشکیل دیا جائے جو یونان میں تارکین وطن افراد کی صورت حال سے بخوبی واقف ہو۔ ہوپ کے بقول، ”ملک بدری سے قبل حراستی مراکز میں مظالم کی نگرانی اور جانج پڑتال کی یورپی یونین کے کمیشن کے ذریعے آزادانہ مالی اعانت کی جانی چاہیے اور ان کی طرف سے سرحدوں سمیت ملک بدری کے حراستی مراکز کا باقاعدگی سے غیر اعلانیہ کنٹرول ہونا چاہیے۔‘‘