بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) متنازعہ شہریت ترمیمی قانون 2019 کے ضابطے حالانکہ ابھی زیر غور ہیں۔ لیکن مودی حکومت نے پانچ ریاستی حکومتوں کو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے غیر مسلم شہریوں کو بھارتی شہریت دینے کا عمل شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔
بھارت میں مودی حکومت نے ایک گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرکے پانچ ریاستوں گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے مجموعی طور پر تیرہ اضلاع کے حکام کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری کے افراد کی جانب سے شہریت کی درخواستوں کو موجودہ ضابطوں کے تحت ہی موصول، تصدیق اور منظور کریں۔
بھارتی وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) 2019 کے ضابطے ابھی وضع نہیں ہو سکے ہیں اس لیے اس نوٹیفیکیشن کو سی اے اے 2019 کے بجائے شہریت قانون 1955ء اور شہریت ضابطے 2009 ء کے تحت جاری کیا گیا ہے۔
اس نوٹیفیکیشن کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں، سکھوں، بدھ مت کے پیروکاروں، جینیوں اور مسیحیوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے اور اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ درخواستیں آن لائن طلب کی گئی ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والی اقلیتی برادری کے لوگوں کو شہریت دینے کا یہ معاملہ مودی حکومت کے ”فسطائی کردار” کو اجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے مودی حکومت پر ‘چور دروازے سے‘ سی اے اے 2019 نافذ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری کا اس حوالے سے کہنا تھا، ”یہ شہریت ترمیمی قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ ابھی تک تو سی اے اے کے آئینی جواز کے حوالے سے عدالت میں دائر عرضیوں پر سماعت ہی شروع نہیں ہوئی ہے اور مرکزی حکومت نے سی اے اے 2019کے ضابطے بھی وضع نہیں کیے ہیں۔”
سیتا رام یچوری کا مزید کہنا تھا کہ مودی حکومت نے جس طرح نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اس پر سپریم کورٹ کو فوراً کارروائی کرنی چاہیے اور متنازعہ قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش کو روک دینا چاہیے۔
بائیں بازو کے ایک اور رہنما سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجا کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کے سبب مظاہروں پر پابندی عائد کیے جانے سے قبل تک متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے تھے اور بعض مقامات پر حکومت نے ان مظاہروں کو انتہائی ‘بے دردی‘ کے ساتھ کچل دیا تھا، ”شہریت دینے کے متعلق نوٹیفکیشن جاری کرنے کے حکومت کے فیصلے سے اس کی بے حسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسے وقت بھی گریز نہیں کر رہی ہے جب کورونا وبا کی وجہ سے ہر روز ہزاروں افراد مر رہے ہیں۔ اس سے حکومت کی بے حسی، عوام دشمنی اور جمہوریت مخالف رویے کا پتہ چلتا ہے۔”
سی پی آئی ایم ایل کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ نے ایک ٹوئٹ کر کے سوال کیا کہ ابھی جبکہ سی اے اے کے ضابطے ہی وضع نہیں کیے جا سکے ہیں اس طرح کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے۔انہوں نے طنز کرتے ہو ئے کہا،”الیکشن ریلیو ں میں بی جے پی کے رہنما شہریت اسی طرح ‘تقسیم‘ کر رہے تھے جیسا کہ اس سے قبل ہر بھارتی شہری کے بینک کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے جمع کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ پناہ گزینوں سے درخواست دینے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ یعنی اب آپ پناہ گزین بن گئے۔ لیکن کیا سی اے اے کے ضابطے نافذ ہو گئے ہیں؟”
بھارتی پارلیمان نے دسمبر 2019ء میں شہریت ترمیمی قانون کو منظوری دی تھی، جس کے تحت یکم جنوری 2015ء سے قبل بھارت میں موجود پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندو، جین، سکھ، پارسی، مسیحی اور بودھوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اس قانون کی سخت نکتہ چینی ہوئی تھی اور اسے جانبدارانہ قرار دیا گیا تھا۔ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔