امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے ایک سکیورٹی عہدیدار کا کہنا ہے کہ بگرام ایئر بیس کی حوالگی کا عمل تقریباً بیس دن میں متوقع ہے اور افغان وزارت دفاع نے اس کا نظام سنبھالنے کے لیے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔
اب جب کہ افغانستان میں تقریباً دو دہائیوں تک جنگ کے بعد امریکی افواج انخلا کے آخری مرحلے میں ہے، ایک اعلی امریکی فوجی افسر کا کہنا ہے کہ ان کے زیر استعمال ملک کے سب سے اہم فوجی اڈے بگرام ایئر بیس کو تقریباً بیس دنوں کے اندر افغان حکومت کے حوالے کردیا جائے گا۔
ایک امریکی فوجی عہدیدار نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے کہا”میں اس بات کی تصدیق کرسکتا ہوں کہ ہم بگرام ایئر بیس (افغان حکومت) کے حوالے کر رہے ہیں۔” انہوں نے تاہم حوالگی کی حتمی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
لیکن ایک افغان سکیورٹی افسر نے بتایا کہ ایئربیس کی حوالگی کا یہ عمل لگ بھگ 20 دن میں متوقع ہے اور افغان وزارت دفاع نے اس کا انتظام سنبھالنے کے لیے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔
بگرام ایئر بیس افغانستان کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے۔ اس کی تعمیر 1980کی دہائی میں سابق سوویت یونین نے کی تھی۔ جنگ زدہ ملک میں امریکا کی فوجی کارروائیوں کے دوران امریکی اور نیٹو کے ہزاروں جوان یہاں تعینات تھے۔
واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے اشارہ کیا ہے کہ امریکا افغانستان سے افواج کے انخلا کی رفتار تیز کر رہا ہے۔ امریکی سنٹرل کمان (سینٹ کام) کے اندازے کے مطابق پیر کے روز تک تیس سے چوالیس فیصد تک انخلاء کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔ چھ فوجی تنصیبات افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کی جاچکی ہیں جبکہ آنے والے دنوں میں مزید فوجی اڈے افغان فورسز کو سونپ دیے جائیں گے۔
اپریل میں صدر جو بائیڈن نے انخلا کے لیے گیارہ ستمبر کا ہدف مقرر کیا تھا۔ اس دوران افغانستان میں مقیم تمام 2500 امریکی فوجیوں اور 16 ہزار کے قریب سویلین کنٹریکٹرز کو ملک سے باہر نکالنا ہے تاکہ امریکی فوج کو دو دہائیوں پر مشتمل اس جنگ سے نکالا جا سکے۔
فوجی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی طرف سے انخلا کے فیصلے کے بعد افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا میں تیزی آ رہی ہے۔ ملک سے تقریباً نصف امریکی فوج اور فوجی ساز و سامان واپس بھیجا جا چکا ہے۔ اسی طرح بھاری مقدار میں ان چیزوں کو تلف کر دیا گیا ہے جنہیں ساتھ نہیں لے جایا جا سکتا۔
سینٹ کام نے ایک بیان میں کہا کہ متوقع طور پر آئندہ دنوں میں مزید فوجی اڈے اور فوجی اثاثے افغان نیشنل ڈیفنس اور سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیے جائیں گے جو اپنے ملک کے استحکام اور سلامتی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
امریکا نے گزشتہ ماہ جنوبی افغانستان میں قندھار ایئر فیلڈ سے بھی انخلا کو مکمل کرلیا تھا۔ جو اس وقت ملک کا دوسرا سب سے بڑا غیر ملکی فوجی اڈہ تھا۔
بگرام ایئربیس گذشتہ دو دہائیوں سے امریکی فوج کے لیے زمینی اور فضائی کارروائیوں کا سب سے بڑا اور اہم مرکز تھا۔ اس اڈے میں ایک جیل بھی ہے جس میں ہزاروں طالبان اور دیگر قیدی گذشتہ کئی برسوں سے قید ہیں۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کا عمل درست سمت میں جاری ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نیٹو چیف کا کہنا ہے کہ اس فوجی اتحاد نے تقریباً دو دہائیوں سے افغانستان میں سلامتی کے حوالے سے مدد فراہم کی ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ اب نسبتاً تربیت یافتہ افغان حکومت اور اس کی مسلح افواج اتنی مضبوط ہیں کہ وہ بین الاقوامی فوج کی مدد کے بغیر تنازع سے متاثرہ ملک کو اپنے طور پر کھڑا کر سکتے ہیں۔
اسٹولٹن برگ نے تنظیم کے وزرائے خارجہ اور دفاع کے ورچوئل اجلاس کی صدارت کر نے کے بعد صحافیوں کو بتایا”ہماری افواج کا انخلا منظم اور مربوط طریقے سے جاری ہے، تاہم ہر مرحلے میں ہمارے اہلکاروں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اتحادی فوجیں اب افغانستان میں نہیں رہیں گی، تاہم تیس ممالک کا اتحاد اور اس کے شراکت دار افغانستان کی ’قابل اور مضبوط سکیورٹی فورس‘ کی فنڈنگ جاری رکھیں گے۔
دوحہ امن مذاکرات کا سلسلہ جلد شروع ہو جانے کی امید ہے۔
امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے دوران طالبان اور افغان افواج کے مابین ملک بھر میں خونی جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
افغان پولیس نے بتایا کہ دارالحکومت کابل میں منگل کو تشدد کے تازہ ترین واقعے میں دو مسافر بسوں کو نشانہ بنا یا گیا، جس میں کم از کم دس شہری ہلاک اور بارہ زخمی ہوگئے۔ اسی طرح ایک اور دھماکے کے نتیجے میں بجلی کے بند ہونے سے کابل کے کئی حصے تاریکی میں ڈوب گئے۔
قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات کا سلسلہ بھی تعطل کا شکار ہے۔ تاہم منگل کے روز افغان حکومت کے مذاکرات کاروں کا ایک گروپ مذاکرات میں شرکت کے لیے دوحہ پہنچا ہے۔ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن نادر نادری نے بتایا کہ امن مذاکرات کا سلسلہ جلد شروع ہو جانے کی امید ہے۔
یہ مذاکرات بارہ ستمبر کو شروع ہوئے تھے لیکن اب تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔