امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے دوران ختم ہو جانے والے روز گار کی وجہ سے پچھلے پانچ برسوں کی پیش رفت تباہ ہو گئی اور اس صورت حال میں کسی بہتری کی فوری توقع بھی نہیں ہے۔
محنت کشوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ‘انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن’ (آئی ایل او) نے دو جون بدھ کے روز اپنی نئی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس کے مطابق عالمی سطح پر روزگار کے مواقع میں جلد اضافے کے امکانات کم ہیں اور 2023 سے پہلے کورونا وبا سے پہلے جیسی صورت حال بحال نہیں ہو سکے گی۔
عالمی سطح پر روزگار کی صورت حال سے متعلق ”دی ورلڈ امپلائمنٹ اینڈ سوشل آؤٹ لوک رپورٹ 2021” میں کہا گیا ہے کہ رواں برس کم از کم 22 کروڑ افراد کے بے روزگار رہنے کی توقع ہے۔ تاہم اگلے برس حالات کے ذرا بہتر ہونے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔
کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے بین الاقوامی لیبر مارکیٹ پر بہت برا اثر پڑا ہے اور رپورٹ کے مطابق اس میں بہتری آنے کی رفتار بھی سست رہے گی اس لیے 2022 میں بھی تقریباً ساڑھے بیس کروڑ افرادکے بے روزگار رہنے کی توقع ہے۔ سن 2019 میں یہ تعداد پونے انیس کروڑ کے آس پاس تھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دوران جو، ”نقصان ہوا ہے اس کو پورا کرنے کے لیے روزگار میں اضافہ سن 2023 سے پہلے تک نا کافی رہے گا۔”
بڑے پیمانے پر ملازمتوں کے ختم ہونے اور بے روز گاری کے بڑھنے سے عالمی عدم مساوات پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ اثر خواتین، نوجوانوں اور غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے والوں پر پڑا ہے۔
آئی ایل او کی اس تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2019 کے بعد سے اب تک پونے دو کروڑ سے بھی زیادہ افراد غربت میں مبتلا ہوئے جس میں سے ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو خط افلاس سے بھی نیچے پہنچ گئے ہیں۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ ”غربت کے خاتمے کے لیے ہونے والی کوششوں کے نتیجے میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جو پیش رفت حاصل کی گئی تھی وہ اس وبا کی وجہ سے ضائع ہو گئی ہے۔”
مزدوروں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ اگر کورونا وائرس کی عالمی وبا کا یہ حملہ نہ ہوا ہوتا تو اس دوران تین کروڑ مزید روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہوتے۔ لیکن اس کے برعکس ہوا یہ ہے کہ بہت سے چھوٹے کاروباری اب تک یا تو دیوالیہ ہو چکے ہیں یا پھر انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
آئی ایل او کے ڈائریکٹر گائے رائیڈر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں روزگار پر پڑنے والے وبا کے اثرات کے بارے میں کہا کہ اس کی تلافی اتنی آسان نہیں ہو گی۔
ان کا کہنا تھا، ”موجودہ رفتار کے مطابق، جب بہتری آنی شروع ہو گی تو اس میں ایک بڑا خطرہ یہ لاحق ہے کہ ہمارے کام کی دنیا زیادہ غیر مساوی ہو سکتی ہے، کیونکہ ہم مضبوط آمدنی اور اعلی آمدن والے ممالک اور اعلی ہنر مند ملازمین کے لیے تو کافی اچھے امکانات دیکھ رہے ہیں، لیکن اس کے برعکس ایک اور طبقہ اس پیمانے کے بالکل دوسرے سرے پر ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ بالآخر تعداد کے اعتبار سے اتنے ہی روزگار پھر پیدا ہو جائیں گے جتنے وبا سے پہلے تھے لیکن، ”لیکن کام کاج کا طریقہ کار بالکل مختلف ہو گا اور ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج اس کو بہتر بنانا ہے۔” ان کے مطابق یہ سب اس بات پر منحصر ہو گا کہ کس طرح کی پالیسیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے رواں برس کی تیسری سہ ماہی میں تقریباً ایک کروڑ مزید روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے لیکن اس کی رفتار توقع سے کم رہے گی۔ ”مزید تشویش کی بات یہ ہو گی کہ نئے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع ناقص اور غیر معیاری قسم کے ہوں گے۔”