کووڈ ویکسین: بھارتی طلبہ ایک نئی مصیبت میں گرفتار

Vaccination

Vaccination

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کی چار سو سے زائد یونیورسٹیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ داخلے کے لیے صرف ایسے بھارتی طلبہ کی درخواستوں پر غور کریں گی جنہوں نے ڈبلیو ایچ او سے منظور شدہ ویکسین لگوائی ہے۔

بھارت میں کووڈ انیس کے لیے فی الحال دو طرح کے ویکسین دستیاب ہیں، ان میں سے ایک ملکی کمپنی بھارت بائیو ٹیک کی تیار کردہ ‘کو ویکسین‘ کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ابھی تک منظوری نہیں دی۔ جن طلبہ نے یہ ویکسین لگوائی ہے، انہیں یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اب وہ کیا کریں؟

اگست کے اواخر تک اعلٰی تعلیم کے لیے امریکا جانے والے بھارتی طلبہ ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں نے ہدایت جاری کی ہے کہ ان کے پاس کووی شیلڈ ویکسین لگوانے کے ثبوت ہونے چاہئیں، کیونکہ بھارت میں جو دو طرح کی ویکسین دستیاب ہے ان میں آ کسفورڈ۔آسٹرازینیکا کی کووی شیلڈ ہی ڈبلیو ایچ او سے منظور شدہ ہے۔

امریکا غیر ملکی طالب علموں کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے والوں میں سے 19 فیصد نے امریکی جامعات کا انتخاب کیا۔

ایک طرف ویکسین کی دوسری خوراک لگوانے میں کافی طویل وقفہ اور دوسری طرف کووی شیلڈ کی کم دستیابی نے طلبہ کی پریشانیاں مزید بڑھادی ہیں۔ انہیں یہ فکر کھا ئے جا رہی ہے کہ آیا روانگی کی مقررہ وقت تک وہ ویکسین لے بھی پائیں گے۔ ‘کوویکسن‘ لے چکے طلبہ کی مصیبت دوسری ہے کہ انہیں اب کیا کرنا ہوگا؟

کینیڈا کی حکومت نے بھی اپنی سرکاری ویب سائٹ پر بتایا ہے کہ کینیڈا میں صرف کووی شیلڈ ویکسین ہی منظور شدہ ہے۔ کوویکسین کے بارے میں اس نے کوئی اطلاع نہیں دی ہے جس کی وجہ سے کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے خواہش مند طلبہ بھی پریشان ہیں۔

بھارت سے ہر سال تقریباً دو لاکھ طلبہ امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ امریکا میں بین الاقوامی طلبہ کے لحاظ سے دوسری سب سے بڑی تعداد بھارتی طلبہ کی ہے۔

مہاجرہ ارمانی افغانستان کے شمالی شہر جلال آباد میں بچیوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔ مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود اب افغانستان میں اسکول جانے والی چھوٹی عمر کی بچیوں کی تعداد چوہتر فیصد ہو چکی ہے۔

تجزیہ کار اور ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت کی حکومت کو اس سلسلے میں قبل از وقت ہی غور کرنا چاہیے تھا۔ اسے جب یہ معلوم تھا کہ کوویکسین کو ابھی تک بین الاقوامی سطح پر منظوری نہیں ملی ہے اس کے باوجود اس نے طلبہ کو اس سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟

کیریئر کے سلسلے میں مشورے دینے والی کمپنی ریچ آئی وی ڈاٹ کوم کی سی ای او ویبھا کاغذی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں کوویکسین بیرونی ملکوں کے ذریعہ منظور شدہ ویکسین کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ”وہ کووی شیلڈ کو بھی متبادل کے طور پر پیش نہیں کرتے ہیں اس لیے اگر بھارت میں کسی طالب علم نے کووی شیلڈ کی ایک ڈوز لے لی ہے تو اسے دوسری ڈوز بھی بھارت میں ہی لینا ہو گی یا پھر اسے امریکا میں منظور شدہ کسی دوسری کمپنی کی ویکسین لگوانا ہو گی۔ لیکن اس سے صحت کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اسی لیے امریکا کی بہت سی یونیورسٹیوں نے طلبہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسی ویکسین لگوائیں جنہیں بین الاقوامی ایجنسیوں سے منظوری حاصل ہو۔‘‘

امریکا میں طلبہ کو فائزر، موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔

بائیو ایتھیکس اینڈ گلوبل ہیلتھ سے وابستہ محقق ڈاکٹر اننت بھان نے تاہم طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ پریشان نہ ہوں۔ ڈاکٹر بھان کا کہنا تھا، ”سکون سے رہیں اور انتظار کریں۔ امید کریں کہ کوویکسین کو بھی کچھ دنوں کے بعد ڈبلیو ایچ او سے ضروری منظوری مل جائے گی۔ بھارت بایو ٹیک کمپنی کو بھی اس سلسلے میں سنجیدہ کوشش کرنا چاہیے۔‘‘