اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (ایچ آر سی) نے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اسرائیل کیخلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات کیلئے انسانی حقوق کونسل (ایچ آر سی) کے خصوصی اجلاس اور بین الاقوامی کمشن قائم کرنے کی قرارداد منظور کی ہے، قرارداد پاکستان نے پیش کی جس پر اسرائیلی وزارت خارجہ کے جنرل منیجر ایلون یوشپز نے سیخ پا ہوتے ہوئے پاکستان پر تنقید کی اور پاکستان کیخلاف اپنے خبث باطن کی بھڑاس یوں نکالی کہ ”انسانی حقوق کا چیمپئن پاکستان عملی طور پر شیشے کے محل میں رہتا ہے ۔بلاشبہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کیخلاف قرارداد کی منظوری بلاشبہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے اور پاکستان کی طرف سے اس کے خیرمقدم پر اسرائیل کا سٹپٹا جانا پاکستان سے اسرائیل کی دشمنی اور اس کے بغض کی عکاسی کرتا ہے، اب یہ اقوام متحدہ کے مستقل رکن ممالک کا بھی فرض ہے کہ وہ قرارداد کے مندرجات کی روشنی میں اسرائیل کیخلاف عالمی پابندیوں کیلئے اپنا کردار ادا کریں، پاکستان تو اپنے حصہ کا کام کر ہی رہا ہے، عرب لیگ اور او آئی سی کے دیگر تمام ارکان کو بھی کھل کر اس قرارداد کی حمایت میں کھڑا ہونا چاہئے۔ اب گیند اقوام متحدہ کی کورٹ میں ہے جسے بہرصورت اپنا غیرجانبدارانہ کردار ادا کرنا ہوگا، اسلامی دنیا مزید پیش رفت کی منتظر ہے۔ جبکہ11 دن کی خوں ریزی کا اختتام بالآخر جنگ بندی کے اعلان پر ہوا۔ سابقہ جنگوں کی طرح اِس جنگ میں بھی غزہ میں انسانی و جانی نقصان ہوا۔ اسرائیل کے وحشیانہ حملوں نے مقبوضہ غزہ پٹی کو تباہ کردیا۔ اِس اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 41 کلومیٹر پر پھیلی پٹی پر جہاں20لاکھ فلسطینی آباد ہیں، ان میںسے 52,000 لوگ بے گھر ہوگئے۔
اسرائیلی حملے عارضی طور پر تو رک گئے ، لیکن اسرائیلی بربریت رکنے والی نہیں ہے۔ وہ پھر سے فلسطینیوں پر قتل و غارتگری کا سلسلہ شروع کرے گا۔ وحشیانہ بمباری میں ایک لاکھ ساتھ ہزار فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں۔ اس میں 322ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ تقریبا 1335رہائشی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوئی ہیں اور 13ہزار رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ 184 ٹاور مسمار کیے گئے ہیں۔ عالمی ادارء صحت کی رپورٹ کے مطابق کہ 30اسپتال تباہ ہوئے ۔ فلسطینی وزارت تعلیم کے مطابق 27طلبہ کے شہیداور 46اسکول کے تباہ ہوئے، جن میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ”اونروا” کے اسکول بھی شامل ہیں۔ اس بمباری میں 243 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 66بچے، 39خواتین اور 17عمر رسیدہ افراد بھی شامل ہیں۔
خواتین اور بچے سمیت تقریبا 1910افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اِس جنگ میں اسرائیلی افواج نے معصوم شہریوں پر ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے شدید گولہ باری اورعام شہریوں کے رہائشی علاقوں اور ان کی املاک پر میزائل سے حملے کیے ۔ کئی بین الاقوامی ابلاغی اداروں کے دفاتر پر حملہ کیا گیا اور صحافیوں کو زخمی کیا گیا ۔ اسرائیلی فوج کے حملے میں ابلاغی اداروں کے 33مراکز تباہ اور 170صحافی زخمی ہوئے ہیں۔ یہ وہ وحشیانہ کاراوائیاں ہیں جن کی وجہ سے اسرائیل جنگی جرائم کامرتکب ہے۔اس جنگ کے دوران پہلی بار غزہ پٹی اور مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کے درمیان زبردست اتحاد و اتفاق دکھا اور مغربی کنارے والوں نے جم کر غزہ والوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی۔ حماس کے حوالے سے فلسطینی متحد نظر آئے۔ حماس کی عسکری ونگ ”القسام بریگیڈ”نے یہ ثابت کردیا کہمسجد اقصی پر جو بری نظر ڈالے گا، اس کو سنگین نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے جنگ بندی کے بعد اپنے پیغام میں کہا کہ فلسطینی قوم نے ایک بار پھرثابت کیا ہے کہ قبلہ اوّل ہمارا ہے اور القدس سرخ لکیر ہے۔
آج فلسطینی قوم کی قابض اور غاصب دشمن پر فتح کا دن ہے۔آج پوری مسلم دنیا، فلسطینی قوم اور دنیا کے زندہ ضمیر لوگ خوش ہیں۔ فلسطینی قوم نے جس بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا ہے، اس نے پوری فلسطینی قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ قدس اوراقصیٰ کی آزادی کا مرحلہ ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ انھوں نے اس عظیم فتح پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔بحر روم کے کنارے شام سے مصر تک تقریباً27 ہزار مربع کلو میٹر کے رقبہ پر مشتمل یہ سرزمین عرصہ درازتک انبیاء رسل کا مرکزومرجع اورمسکن ومدفن رہی ،اسی بابرکت خطہ ارض میں وہ مقدس شہر بھی واقع ہے جسے قدیم تاریخ میں ”ایلیا”، عربی میں ”القدس” اور اردو میں ”بیت المقدس” کہا جاتا ہے۔ یہ بحر روم سے 52 کلو میٹر ، بحر احمر سے 250 کلو میٹر اور بحر مردار سے 22 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔
بحر روم سے اس کی اونچائی 750 میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی 1150 میٹر ہے۔اس مقدس شہر کی تاریخ ایسی ہنگامہ آرائیوں اور معرکہ خیزیوں سے بھری پڑی ہے جس میں تین آسمانی مذاہب کے مقدس مقامات و آثار پائے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے بیت المقدس تینوں ہی آسمانی مذاہب اسلام،عیسائیت ا ور یہودیت کے نزدیک قابل احترام اور لائق تعظیم ہے ،اہل اسلام کے نزدیک اس لیے کہ یہیں مسجد اقصی ہے جو ان کا قبلہ اول اور جائے معراج ہے۔یہی وہ باعظمت ارض مقدس ہے ؛جس کا تعارف کرواتے ہوئے فاتح اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے سپاہیوں سے فرمایا : ”اے میرے رفیقو!16 ہجری کا ربیع الاول یاد کرو جب عمر و بن العاص اور ان کے ساتھیوں نے بیت المقدس کو کفار سے آزاد کرایا تھا۔ حضرت عمر اس وقت خلیفہ تھے ، وہ بیت المقدس گئے ،حضرت بلال ان کے ساتھ تھے ، حضرت بلال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے خاموش ہوئے تھے کہ لوگ ان کی پر سوز آواز کو ترس گئے تھے ، انہوں نے اذان دینی چھوڑ دی تھی لیکن مسجد اقصیٰ میں آکر حضرت عمر نے انہیں کہا کہ بلال! مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے درودیوار نے بڑی لمبی مدت سے اذان نہیں سنی۔ آزادی کی پہلی اذان تم نہ دو گے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد پہلی بار حضرت بلال نے اذان دی ، اور جب انہوں نے کہا کہ اشھد ان محمد رسول اللہ۔تو مسجد اقصیٰ میں سب کی دھا ڑیں نکل گئی تھیں”۔ یہ امر مسلمانوں کے لیے باعث ننگ وعارہے کہ ان کا قبلہ اول برکتوں کا خزانہ آج ان کے ہاتھوں سے چھن چکا ہے۔
پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو عرب اسرائیل جنگ چھڑی،اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے ، تاہم مشرقی یروشلم(بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔پھر جون 1967ء میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔