بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا اور نیٹو کے فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں ہونے والی سیاسی اور عسکری تبدیلیوں کے ماحول ميں بھارت تنہا رہ جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔
بھارت نے افغانستان میں آئندہ مہینوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے مدنظر افغان طالبان کے مختلف گروپوں اور رہنماؤں، بشمول ملا برادر، سے رابطہ کاری شروع کر دی ہے۔ اسٹریٹیجک امور کے ماہرین اسے بھارت کی افغان پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔
طالبان کے حوالے سے نئی دہلی کے موقف میں یہ ‘غیر معمولی تبدیلی‘ اس لیے بھی آ رہی ہے کیونکہ خطے کے متعدد ممالک اور اہم عالمی طاقتوں نے کابل پر مستقبل میں طالبان کی ممکنہ حکومت کے مدنظر اپنی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی شروع کر دی ہیں۔
افغان طالبان کے مختلف گروپوں کے ساتھ نئی دہلی کے رابطوں کا سلسلہ فی الحال بڑی حد تک بھارتی سکیورٹی عہدیداروں اور طالبان کے ان گروپوں اور رہنماؤں تک محدود ہے جنہیں ‘قوم پرست‘ تصور کیا جاتا ہے یا جو ایران یا پاکستان کے زیر اثر نہیں۔ بھارتی ذرائع کے مطابق رابطوں کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے حالانکہ فی الحال اس کی نوعیت طالبان کا ‘ذہن ٹٹولنے‘ کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ میں جوائنٹ سکریٹری اور پاکستان، افغانستان اورایران کا شعبہ دیکھنے والے جے پی سنگھ کا گزشتہ ماہ کابل کا دورہ، افغان رہنماؤں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی انہیں کوششوں کی کڑی تھی۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے اس حوالے سے خبروں کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہر ظفر آغا نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان سے بات چیت کرنے کے لیے بھارت پر اس وقت کافی دباؤ ہے کیونکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ طالبان اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”بھارت کے اندر سفارت کاروں کا ایک بڑا گروپ طالبان کے ساتھ بات چیت کا حامی ہے۔ اور چونکہ خطے کے بعض ممالک نے طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کردی ہے ایسے میں بھارت نہیں چاہے گا کہ وہ اکیلا رہ جائے۔”
انہوں نے تاہم کہا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ بھارت طالبان کے موقف اور نظریات کی حمایت کرے گا۔ اس کا مقصد يہ طے کرنا ہے کہ طالبان بھارت کو کیا پیش کر سکتے ہیں۔ بھارت کی دیرینہ پالیسی ہے کہ کسی بھی مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہيے، تشدد کا خاتمہ ہونا چاہيے اور جمہوری نظام برقرار رہنا چاہيے۔
ظفر آغا کے خیال میں بھارت کا طالبان سے بات چیت کرنا دراصل ان حق میں ہے۔ ”اس سے طالبان کو ایک طرح سے قانونی جواز مل جائے گا، جس کی انہیں اس وقت بہت ضرورت ہے۔”
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
بھارت میں اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملا برادر سے بھارتی عہدیداروں کی ملاقات اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ انہوں نے ہی فروری سن 2020 میں اس وقت امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلاء کا راستہ ہموار ہوا۔
سن 1996سے 2001 کے درمیان جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی، اس وقت ملا برادر کئی عہدوں پر فائز رہے۔ انہیں فروری سن 2010 میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے کراچی سے گرفتار کیا تھا۔ سن 2018 میں انہیں رہا کر دیا گیا اور وہ دوحہ میں طالبان کے دفتر کے سربراہ بن گئے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ، ”بھارتی حکام نے شروع میں طالبان کے ساتھ رابطہ کے بجائے شمالی اتحاد پر اپنی تمام کوششیں صرف کیں لیکن چونکہ صورت حال اب کافی تبدیل ہوچکی ہے لہذا بھارتی سفارت کاروں کے ایک حلقے کا خیال ہے کہ طالبان رہنماؤں کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کرنا احسن ہوگا۔” بہر حال ایک حلقے کی رائے ہے کہ بھارت کو اپنی اس کوشش میں حقانی نیٹ ورک یا کوئٹہ شوریٰ کے اراکین کے ساتھ کسی طرح کا ربط نہیں رکھنا چاہيے کیونکہ انہیں پاکستانی فوج کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔
ظفر آغا اس حوالے سے کہتے ہیں، ”طالبان اور پاکستان کے زبردست رشتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کو نہیں چھوڑ سکتے۔ طالبان کا وجود بھی پاکستان کے بغیر نہیں رہے گا اور پاکستان چاہتا بھی يہی ہے کہ طالبان افغانستان میں ایک بڑا کردار ادا کریں۔ وہ وہاں جمہوری حکومت کے بجائے اسلامی حکومت دیکھنا چاہتا ہے۔”
تجزیہ کاروں کے مطابق بعض طالبان رہنماوں کو اس حقیقت کا ادراک ہوگیا ہے کہ ان کے لیے افغانستان میں بھارت کے کردار کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگا۔ بھارت افغانستان میں تعمیر نو کے سلسلے میں خطے کا سب سے بڑا امدادی ملک ہے۔ اس نے ترقیاتی کاموں کے لیے تین ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔