ملک کے تعلیمی نصاب سے اسلامی کو بے دخل کرنے کے مختلف واقعات پاکستان میںرو نماء ہوتے رہے ہیں۔ہماری ح سیکولر سوچ رکھنے والی ساری حکومتیں اس میں استعمال ہوتی رہیتی ہیں۔ بیرونی فنڈنگ سے چلنے وای این جی اُوز نے اپنے بیرانی آقائو ں کی مدد سے پاکستان کے تعلیمی نظام کو اس کی اصل اسلام سے ہٹا کر اسے سیکولرزم کی طرف کرنے کے اسباب سامنے آتے رہتے ہیں۔ایسے ایک عدلیہ کا تعلیمی نظام کے متعلق فیصلے سے پریشانی سامنے آئی ہے ۔ہمارے دانشور مودجودہ سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ نازک مسئلے کو کوئی درست سمت دیں۔ اسی سلسلے میں ہمارے دوست شہزاد شامی صاحب نے تجزیہ کیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
جسٹس جیلانی کے دلائل بحق اقلیات پر نظر عدم برداشت، نفرت، معاشرتی تقسیم اور تشدد پر جج صاحب نے انگریزی اخبار ڈان کے اس چھوٹے سے سروے سے نتائج اخذ کیے جس کے کل شرکا ٦٠٠ کے لگ بھگ تھے ۔ کسی یونی ورسٹی میں بی ایس کا طالب علم متعین اہداف والے ایسے اخباری سروے سے نتائج نکالے تو استاد اس کی اسائنمنٹ بِن میں ڈال دیتا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ اخبار اور متعین اہداف والے ادارے اور این جی او ذہن سازی کے لیے ایسے سروے کرتے ہیں جن کی نہ کوئی علمی افادیت ہوتی ہے اور نہ انھیں کسی سنجیدہ فورم پر پیش کیا جاتا ہے ۔ ایسے سروے کو اخبار کا معاصر چٹکیوں میں اڑا کر رکھ دیتا ہے ۔ ادھر جسٹس جیلانی صاحب ٦٠٠ افرادکے سروے کو ٢٢کروڑ پر نافذ کر گزرے ۔ کیا ہماری پارلیمنٹ اعلیٰ عدلیہ کے افراد کی اہلیت پر نظرثانی کرنا پسند کرے گی؟
آئین، قانون اور قرارداد کی قوت حکومتوں کو احکام جاری کرتے وقت جسٹس جیلانی نے جن دلائل کا سہارا لیا، ان میں سے ایک اقوام متحدہ کی قرارداد مجریہ١٩٦٦ہے :”ہرکسی کو فکر،ادراک اور مذہب کی آزادی ہے … اپنے مذہب یا عقیدے کی پیروی کرنے ، مشاہدے ، عمل اور فروغ دینے اور اس کی تعلیمات عام کرنے کی آزادی ہے ”۔ پھر جج صاحب ١٩٨١ء کی اقوام متحدہ کی ایک اور قرارداد سے روشنی لیتے ہیں۔قارئین اتنے بے بہرہ نہیں ہیں کہ وہ آئین، قانون اور قرارداد میں فرق نہ کرسکیں ۔لیکن اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو کل کوئی جج ١٩٤٨ء کی اقوام متحدہ کی کشمیرپر قرارداد کی بنیاد پر حکومت کومقبوضہ کشمیر پرچڑھ دوڑنے کا حکم دے دے گا۔ مجھے تو یہ کچھ پڑھ کر اختلاجِ قلب ہونے لگا ہے۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی کے اس فیصلے پر ہماری جامعات کے صرف لا ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں، متعدد دیگر شعبے بھی اپنے طلبہ کو تحقیق پرلگاسکتے ہیں لیکن فی الوقت موجودہ محترم چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ اس فیصلے پر نظرثانی کا کوئی ایسا قابلِ اطمینان بندوبست کریں جس سے مسلمان اور اقلیتیں دونوں مطمئن ہوں۔ان دونوں کو نصابِ تعلیم سے کوئی شکایت نہیں ہے ، یہ آپ آیندہ سطور میں پڑھیں گے ۔ شکایت ہے تو ڈالر خوروں کو، اپنے ڈیڑھ پائو گوشت کی خاطر ٢٢کروڑ عوام کی بھینس ذبح کردینے والوں کو اور ملک میں کسی نہ کسی بہانے افراتفری بپا رکھنے والوں کو۔
موجودہ نصاب پر اقلیتی آرائ راقم اور دیگر بہت سے لوگوں پر دمکتے سورج کی طرح یہ بات عیاں ہے کہ نصاب میں موجود اسلام اور اسلامی تعلیمات اقلیتوں کو نہ صرف قبول ہیں بلکہ وہ اس حق میں ہیں کہ نصاب علیٰ حالہ رہنا چاہیے ۔ اس دعوے کی بنیاد اقلیتوں کے نمایندہ ادارے ‘پاکستان مائنارٹی کمیشن’ کے چیئرمین جناب چیلا رام کا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے واشگاف الفظ میں سڈل کمیشن کی سفارشات مسترد کردیں۔اقلیتوں کی طرف سے سپریم کورٹ کے اندر کھڑے ہوکر انھوں نے کہا کہ موجودہ نصابِ تعلیم بہت مناسب ہے اور ہمیں قبول ہے ۔
اب اکیسویں صدی کے اس عہد جمہوریت میں کیا کسی برادری کے نمایندہ افراد کی بات قابلِ قبول ہوگی یا ایک غیرمتعلق ریٹائرڈ شخص کی آرا قبول کرنے پراقلیتوں کو مجبور کیا جائے گا؟ ایسے شخص کی آرا جو اپنی پولیس کمیونٹی کا بھی وفادار نہیں ہے ۔ یاد دلانا مناسب ہوگا کہ کوئی چھے ماہ قبل سندھ پولیس کے آئی جی کے غائب ہونے پر ٣٠،٣٥ افسران نے استعفے دے دیئے تو اپنی کمیونٹی کے بارے میں موصوف کے الفاظ ملاحظہ ہوں: ”ان سب افسران کے خلاف مقدمات کھولے جائیں، ان کو سائیڈ لائن پر کرکے رینجرز سے شو آف پاور کرایا جائے ۔ یہ دو دن میں ٹھیک ہوجائیں گے ۔ یہ رشوت کے بغیر دودن گزارا نہیں کرسکتے ۔ ان کی ایسی کی تیسی” (تفصیل یوٹیوب پران کی اپنی زبانی سن لیں)۔ اب جس شخص کی وفاداری اپنے ادارے سے نہ ہو، اس سے آپ کچھ بھی توقع کرسکتے ہیں لہٰذا ایک رکنی سڈل کمیشن کی سفارشات پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔
جناب چیلارام کے بیان کے باوجود مجھے تسلی نہیں ہوئی کہ سرکاری ادارے میں شاید وہ لوگ ہوتے ہیں جو سرکارکے قریب ہوں۔ یہ سوچ کر میں نے مذہبی اقلیتی آبادی کے قدآور رہنمائوں سے رابطہ کیا کہ وہ وفاقی وزارتِ تعلیم کے اس نصاب پر کیا رائے رکھتے ہیں؟ ان افراد سے میرا سوال یوں تھا: ” نئے متفقہ نصابِ کے مضامین اُردو ، مطالعہ پاکستان، تاریخ اور انگریزی
٢ میں نعت، حمد، اللہ ،رسولۖ، خلفائے راشدین اور اسلامی تعلیمات پر مبنی نصاب پر کیا آپ کو بحیثیت اقلیتی راہنما کوئی اعتراض ہے ” ؟ سوال کے جوابات جو حاصل ہوئے ،وہ من و عن آپ کی نذر ہیں: ١ـ جناب ڈاکٹر سونو کھنگھارانی
ڈاکٹر کھنگھارانی صوبہ سندھ کے معروف شہرمٹھی میں مقیم ہیں۔ پاکستان دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک کے کنوینر ہیں۔ موصوف جنوبی ایشیا کے معروف ادارے ‘ایشین دلت رائٹس فورم’ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے پاکستان سے ممبر ہیں۔آپ ‘انٹرنیشنل دلت سالیڈیرٹی نیٹ ورک’ کے بورڈ میں پاکستان کی نمایندگی کرتے ہوئے اس بورڈ کے ممبر ہیں۔ڈاکٹر صاحب ٣٠ لاکھ غیرمسلموں کے نمایندہ ہیں۔ انھیں ‘نشانِ امتیاز’ بھی مل چکا ہے ۔ میں نے اپنا سوال ان کے سامنے رکھا۔جس کا جواب انہوں نے تفصیل اور جامعیت کے ساتھ دیا۔ اس ایک سوال کے جواب میں انھوں
نے پندرہ منٹ صرف کیے ۔ خلاصہ تین نکات میں تھا جسے دُہرا کرکے میں نے اپنے الفاظ کی تصدیق کرائی۔ انھوں نے تین نکاتی نقطۂ نظر بیان کیا۔ان کے فوری الفاظ یوں تھے :”یہ(سفارشات) تعصب پر مبنی ہیں”۔ مذکورہ سوال پر ان کا جواب ملاحظہ ہو: ١ـ پاکستان مسلمانوں نے بنایا تھا لہٰذا اس ٩٧ فی صدآبادی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق اپنا نظامِ تعلیم مرتب کرے ۔ ہم غیرمسلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ غیرمسلم اقلیتوں کے لیے نفرت انگیز مواد نہیں ہونا چاہیے ۔
٢ـ تقسیم ہند کے بعد اقلیتوں کو یہ اختیار مل گیا تھا کہ وہ پاکستان میں رہیں یا ہندستان میں کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر مسلمانوں نے بنا یاتھا۔ اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے لاکھوں لوگ ہندستان ہجرت کرگئے ۔ اب یہاں رہ جانے والے غیرمسلم یہ حقیقت قبول کرکے یہاں مقیم ہیں کہ ہم نے اکثریتی آبادی کے ساتھ رہنا ہے اور اکثریتی آبادی کو ملکی نظام اپنی خواہشات پر ترتیب دینے کا حق حاصل ہے ۔ ہمیں اور لاکھوں افراد پر مشتمل ہماری اقلیتی آبادی کو اس نصاب پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔
٣ـ ہم تو ویسے بھی مسلمانوں کی طرح اپنے مُردے دفناتے ہیں۔ اللہ، رسول، ان شاء اللہ، اللہ حافظ اور ایسے متعدد الفاظ ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ اسلام، اسلامی تعلیمات اور تاریخ اسلام کا مطالعہ ہماری اپنی ضرورت ہے ۔ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں اس ملک کا نظام اگر ہماری اولادیں نہیں جانیں گی تو مسلمانوں کو سمجھیں گی کیسے ؟ سائیں! اپنے بچوں کو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ملازمتوں کے لیے بھیجنے سے پہلے ہم خود انھیں اسلام اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں تاکہ دوسرے ملک میں انھیں کوئی مشکل پیش نہ آئے ۔ اسلامی تعلیمات سے آگاہی خود ہماری اپنی ضرورت ہے ۔ موجودہ نصاب سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔
٢ـ جناب گنپت رائے بھیل مدیر دلت ادب ڈاکٹرکھنگھارانی ٣٠لاکھ شیڈولڈ کاسٹ آبادی کے سیاسی راہنما اور دانشور ہیں۔ سیاسی راہنما کا زاویۂ نگاہ یقینا عوامی اُمنگوں کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ لیکن اس رہنمائی کو اگر تعلیم و تعلّم کا پیوند لگ جائے تو اس میں بے پناہ وزن پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے جس اگلے غیرمسلم راہنما سے رابطہ کیا وہ جناب گنپت رائے بھیل تھے ۔ موصوف اپنے زمانۂ طالب علمی میں میجر خورشیدقائم خانی سے متاثر ہوئے جنھوں نے فوج سے مستعفی ہوکر اپنی زندگی دلت برادری کے لیے وقف کردی تھی۔ میجر صاحب نے ایک سندھی جریدہ دلت ادب جاری کیا تو گنپت رائے ان کے نائب مدیر رہے ۔ان کی وفا ت پر رائے صاحب مدیر ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں اور مٹھی میں پڑھاتے ہیں۔ بھارتی دستور کے آرکیٹکٹ ڈاکٹر امبیدکر کی سوانح عمری ‘ڈاکٹر امبیدکر کی زندگی کی جدوجہد’ از سعید شاہ غازی الدین کا آپ نے سندھی ترجمہ کیا۔آپ قلم کتاب تک محدود نہیں بلکہ ١٩ـ٢٠١٣ء تک سندھی جریدے سندھ ایکسپریس میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔
نصابِ تعلیم کے حوالے سے میں نے اپنا سوال ان کے سامنے رکھا تو انھوں نے تفصیل سے جواب دیا۔ ان کی گفتگو سوال کی حدبندی سے باہر تو ہوئی لیکن سوال اور نصابِ سے باہر وہ نہیں گئے ۔ نصاب کی نسبت سے تو انھوں نے شروع ہی میں دوٹوک کہہ دیا کہ ہم ٣٠ لاکھ غیرمسلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اُردو، تاریخ، مطالعہ پاکستان، انگریزی کسی بھی مضمون میں اسلام اور اسلامی تاریخ کا نصاب میں ہوناضروری ہے ۔ ان کی گفتگو بھی تین نکات کا احاطہ کرتی تھی: ١ـ ٩٧/٩٠ فی صد آبادی کے اس مسلمان ملک میں اسلام کسی بھی شکل میں پڑھایا جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ ٢ـ گنپت صاحب کو شکوہ تھا کہ شیدولڈ کاسٹ برادری کے راہنما اور شیدولڈ کاسٹ فیڈریشن کے صدر جوگندر ناتھ منڈل نے کانگرس کی ہندو قیادت کو چھوڑ کر اپنے ٢١ساتھیوں اور چار سرکردہ اینگلوانڈین کے ہمراہ مسلم لیگ کا ساتھ دے کر تحریک پاکستان میں شرکت کی لیکن تاریخ میں صرف مسلم لیگ کابیانیہ پڑھایا جاتا ہے ۔ ضروری ہے کہ ہمارے ان رہنمائوں کا ذکر بھی نصابی کتب میں کیا جائے کہ انھوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دے کر تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔
٣ـ جناب گنپت رائے نے یہ کہہ کر مجھے حیران کردیاکہ اُردو، انگریزی، تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے نصاب میں اگر اللہ، رسول، نعت، حمد، اور تاریخ پاکستان آتے ہیں (جن سے غیرمسلم بچے ویسے بھی مستثنیٰ ہیں کہ وہ یہ چیزیں یاد کریں)تو اعلیٰ مسیحی تعلیمی اداروں میں کیا مسلمان بچے مسیحی مناجات اور مسیحی دُعائیہ کلمات میں شریک نہیں ہوتے ۔دُور نہیں کراچی کے سینٹ پیٹرسن میں دیکھ لیں، میری بات کی تصدیق ہو جائے گی۔