چین کا زور توڑنے کے لیے امیر ملک غریب ممالک کی مدد کریں گے

Justin Trudeau

Justin Trudeau

برطانیہ (اصل میڈیا ڈیسک) چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود رکھنے کی غرض سے جی سیون ممالک نے غریب ریاستوں میں سرمایہ کاری کے ایک منصوبے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ لیکن کیا یہ منصوبہ چینی ماڈل کا توڑ ثابت ہو گا؟

ترقی یافتہ ریاستوں کے گروپ جی سیون کے رکن ممالک نے غریب ملکوں میں بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے لیے ایک وسیع تر منصوبے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ امیر ممالک غریب ریاستوں کے انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے سرمایہ کاری کریں گے۔ اس کاوش کا مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثر و رسوخ اور بالخصوص ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹوو کا مقابلہ کرنا ہے۔ امریکا کے ‘بہتر دنیا کی تعمیر نو (B3W) کی طرز پر تشکیل دیے گئے اس منصوبے کو امریکی صدر جو بائیڈن کی دیگر رہنماں کے ساتھ ملاقات کے بعد حتمی شکل دی گئی۔

برطانیہ کے ساحلی علاقے کاربِس بے میں تین روزہ جی سیون سمٹ جمعے کو شروع ہوئی تھی۔ پہلے دن رکن ممالک نے غریب ملکوں کے لیے کورونا ویکسین عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس سمٹ کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں دو برس بعد پہلی مرتبہ رکن ملکوں کے سربراہان بالمشافہ مل رہے ہیں۔ ورنہ کورونا کی وبا کی وجہ سے گزشتہ ڈیڑھ سال سے تقریبا تمام سربراہی اجلاس آن لائن ہی ہوتے رہے ہیں۔ جی سیون گروپ برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکا پر مشتمل ہے۔

لوی انسٹی ٹیوٹ کے مرتب کردہ عالمی سفارت کاری انڈیکس کے مطابق چین اس ضمن میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔ دنیا بھر میں چینی سفارتی مشنز کی مجموعی تعداد 276 ہے۔ چین نے دنیا کے 169 ممالک میں سفارت خانے کھول رکھے ہیں۔ مختلف ممالک میں چینی قونصل خانوں کی تعداد 98 ہے جب کہ مستقل مشنز کی تعداد آٹھ ہے۔

جی سیون سمٹ میں ہفتہ بارہ جون کو شرکا کے مابین مستقبل میں کسی نئی عالمی وبا سے بچنے کے لیے ایک متفقہ اور جامع حکمت عملی پر اتفاق رائے ہو گیا۔ ‘کاربِس بے ڈیکلیریشن کو حتمی شکل دینے کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی تیار کیا گیا ہے، جس کی تفصیلات کل اتوار کو جاری کی جائیں گی۔

جی سیون سربراہی اجلاس کے دوسرے دن کے اہم موضوعات میں روس کی وجہ سے لاحق چیلنجز بھی شامل ہیں۔ میانمار میں فوجی بغاوت، ہانگ کانگ میں جمہوری اقدار کی بقا کے لیے جدوجہد اور مشرقی یوکرائن میں مبینہ روسی مداخلت سمیت کئی اہم امور پر بھی بات چیت جاری ہے۔ اس تین روزہ اجلاس میں اس بار خصوصی دعوت پر شرکت کرنے والے ممالک آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا اور بھارت کے نمائندوں سے بھی ہفتے کے روز تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ کل اس اجلاس کا آخری دن ہے، جس دوران ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑے خطرات اور مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔