ایران (اصل میڈیا ڈیسک) وقتا فوقتا ایران اپنی افواج کو فوجی پریڈوں میں ظاہر کرتا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی طاقت ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکا کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تاہم امریکی فوجی اور عسکری امور کے ماہرین نے بات کرتے ہوئے ایرانی دفاعی طاقت پر اظہار خیال کیا۔ وہ ایران کی طاقت کو بالکل مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔ ایک امریکی عسکریہ تجزیہ نگار نے کہا کہ حال ہی ایران میں ہونے والے زور دار دھماکوں اور سمندر میں آگ لگنے کے باعث ایرانی جہاز کے ڈوبنےسے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایرانیوں کے پاس کیا ہے اس وقت تک اہم نہیں جب تک وہ مسخروں کی طرح برتاؤ کریں گے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکی ایران کو کم نہیں سمجھتے۔اس سے پڑوسی ممالک اور آبی گذرگاہوں میں بین الاقوامی بحری جہازرانی کو خطرات لاحق ہیں۔ امریکی فوجی انٹلی جنس نے دو سال قبل ایرانی فوجی صلاحیتوں کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی تھی جس میں یہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ایران کے پاس فعال ڈیوٹی پر 600،000 سے زیادہ فوجی موجود ہیں۔ان میں سے 150،000 پاسداران انقلاب سے وابستہ ہیں۔ایرانی افواج کے پاس بھی 1،900 سے زیادہ ٹینک ، سیکڑوں جنگی طیارے ،کچھ اقسامکی آبدوزیں اور جنگی جہاز ہیں۔ گذشتہ دو سالوں میں اس نے زیادہ بیلسٹک اور ٹرانزٹ میزائل اور ڈرون تیار کیے ہیں۔ان سے ہمسایہ ممالک کی سلامتی اور امریکا کے مفادات کے لیےایران کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
تاہم امریکی فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج کی تعداد سے ایران کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک تجزیہ نگار نے استفسار کیا کہ “کیا ایرانیوں کے پاس ان ٹینکوں اور طیاروں کے لیے ایندھن موجود ہے؟ کیا ان فوجی مشینوں کو چلانے کے لیے ضروری پروڈکشن چین دستیاب ہے؟ “مسئلہ تیاری سے متعلق ہے اور یہی اہم ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی مربوط طریقے سے کچھ پلیٹ فارم چلانے کے قابل ہیں۔ یہ ایرانی میزائل منصوبوں سے ثابت ہے۔ اسی وجہ سے ایران کا خطرہ لاحق ہے۔
ایرانی بحریہ ایک بین الاقوامی پانیوں میں جہاز بھیجنا اور کسی بحری جہاز کو روک کر اسے ایرانی بندرگاہ پر جانے پر مجبور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن یہ کچھ دن سے زیادہ عرصے تک بین الاقوامی اکھاڑے پر کسی بھی معروف طاقت کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
دوسری طرف امریکا کے پاس دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور فوجی قوت ہے اور اس کا بجٹ دس ممالک کے “مشترکہ” کے بجٹ کے برابر ہے۔ اس کے پاس روسی میزائلوں کی تعداد کے برابر جوہری میزائل ہیں۔ امریکا کی چین کے برابر بحری طاقت رکھتی ہے لیکن اس نے دنیا کے ممالک کو بڑی دفاعی قابلیتوں سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ امریکا کے پاس جو قوت ہے وہ کسی اور طاقت کے پاس نہیں ہے ، ان میں سب سے اہم اینٹی میزائل نظام ہے۔
اس تقابلی جائزے سے ساتھ ، ظاہر ہوتا ہے کہ ایران امریکا کے مقابلے میں ایک کمزور اور کھوکھلی طاقت ہے۔ امریکی فوج نے زور دے کر کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی کشیدگی امریکی اور ایران کے فوجی بجٹ پر ایک بوجھ بھی بن رہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی زور دے کر کہا کہ گذشتہ برسوں کے دوران ، ایران امریکا کے ساتھ کسی بھی قسم کی محاذ آرائی سے مکمل طور پر گریز کی پالیسی پرعمل پیرا رہا ہے۔ کیوں کہ اسے پوری طرح سے اندازہ ہے کہ تہران کی طرف سے کسی بھی کشیدگی رد عمل میں اسے امریکا جیسی ایک بہت بڑی طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا اور تہران اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
شاید اس کی عمدہ مثال جو امریکیوں نے پیش کی وہ وہی ہے جو بغداد ہوائی اڈے پر “قاسم سلیمانی” کے قتل کے بعد سامنےآئی تھی۔ تہران نے اس کا جواب دینے کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن عین الاسد اڈے پر بمباری کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس حملے میں کوئی امریکی نہیں مارا گیا مارا نہیں گیا تھا حالانکہ ایران نے کہا تھا کہ وہ سلیمانی کے قتل کا منہ توڑ جواب دے گا۔