قومی اسمبلی میں ملکی پارلیمانی تاریخ کی بدترین ہنگامہ آرائی ہوئی اور یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا آپ سوشل میڈیا سے اس تاریخی گالم گلوچ کی ویڈیو نکال کردیکھ لیں سب کچھ واضح ہو جائیگا بلکہ ہوسکے تو لاہور سے ن لیگی ایم این اے شیخ روحیل اصغر کی پرانی گالیوں والی ویڈیو نکال کردیکھ لیں جس میں وہ دھوتی باندھے انتہائی غلیظ اور گندی گالیاں نکالنے میں مصروف ہیں اوربجٹ اجلاس میں بھی گالیوں کی ابتدا یقینا مسلم لیگ ن کی طرف سے کی گئی ہوگی کیونکہ ہلڑبازی کرنا اور غیرپارلیمانی زبان استعمال کرنا اپوزیشن کا وطیرہ ہے۔
ان لوگوں نے پہلے دن سے وزیراعظم عمران خان کو تقریر نہیں کرنے دی اور آج تک اسمبلی میں شور ڈالتے ہیں کہتے ہیں ناں کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے منگل کو قومی اسمبلی اجلاس میں جو ہوا وہ اپوزیشن کے غیرذمہ دارانہ رویے کا ردعمل تھامگر حکومتی اراکین نے اپوزیشن اراکین کی ہنگامہ آرائی شروع ہونے سے قبل اپوزیشن اراکین کی وہ ویڈیو نہیں بنائیں جس سے ماحول اتنا کشیدہ ہوگیا کہ اسمبلی میں اشتعال انگیزی اتنی بڑھ گئی کہ کوئی فرد کسی کے قابو میں نہ رہا تو پھراس وقت ن لیگیوں نے اپنے مطلب کی ویڈیو بنانا شروع کردی حکومتی اراکین کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ بات اس حد تک بڑھ جائیگی ایک اور بات کہ اپنے ہی گھر میں کوئی لڑائی نہیں چاہتا ماحول کو پرسکون رکھنا بھی انہی کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر جب بات برداشت سے آگے چلی جائے تو پھر کوئی قاعدہ قانون نہیں رہتا ہمار ا معاشرہ ایسی داستانوں سے بھرا پڑا ہے کہ معمولی سی تلخ کلامی برداشت نہ کرنے پرخاندان کے خاندان تباہ برباد ہوگئے جیلوں میں ایسے افراد اب سزا کاٹ رہے ہیں۔
ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے تب سے ہی مخالفین کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح انہیں تنگ کیا جائے اور تنگ بھی اس حد تک کہ عمران خان اسمبلیاں توڑ دے یا پھر استعفی دیدے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ایوان کا ماحول خراب رہے تاکہ حکومت قانون سازی نہ کر سکے اسلئے یہ کبھی وزیراعظم عمران خان اور کبھی اسپیکر اسمبلی کو مارنے کی دھمکی دیتے ہیں بجٹ اجلاس میں جب بات حد سے بڑھ گئی اور اپوزیشن کے شدید احتجاج پر اسپیکر کو جب احتجاج ملتوی کرنا پڑا تو ن لیگی ارکان نے بھاگ گیا بھاگ کے نعرے لگانے شروع کردیے جسکے بعد لیگی اور حکومتی ارکان آمنے سامنے آگئے اور ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی کی گندی اور ننگی گالیاں بھی ایک دوسرے کو دی گئی یہ کون سی سیاست ہے کہ اپنے آپ کو اشرافیہ،عزت دار اور عام انسان سے اوپر سمجھنے والے اسمبلی میں گالیاں کھاتے پھریں انسان عزت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے مگر یہ ہمارے کیسے اراکین ہیں جو بڑے شوق سے گالیاں کھاتے بھی ہیں اور نکالتے بھی ہیں پاکستان کا تشخص تو پہلے ہی ہمارے لٹیرے سیاستدانوں نے خراب کیا ہوا تھا بڑی کوششوں سے وزیراعظم عمران خان نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مثبت تشخص کو اجاگر اور اس کا کھویا ہوا وقار بحال کیا ہے بیرون ملک سبز پاسپورٹ کی عزت بحال کروائی ورنہ تو پہلے ہمارے وزیراعظم تک کے کپڑے اتروالیے جاتے تھے۔
گزشتہ روز اسمبلی میں جو ہوا کوئی بھی اس کی حمایت نہیں کرے گا لیکن اپوزیشن ارکان جب حکومتی ارکان کو اشتعال دلائیں گے اور ان کے خلاف گالم گلوچ کریں گے تو آگے سے کوئی انہیں پھول نہیں پھینکے گا اپوزیشن کے تلخ رویے کے باوجود اب تک قومی اسمبلی سے 110قانون پاس ہو چکے ہیں اپوزیشن کی ایک اور بات کہ جب قانون پاس ہوں تو یہ اعتراض کرتے ہیں اورقانون پاس نہ ہوں تب بغلیں بجاتے ہیں اپوزیشن کا ایجنڈا ہے کہ پارلیمنٹ کو نہیں چلنے دیناکیونکہ اگر پارلیمنٹ چلی تو پھر ان سب کا چلنا مشکل ہوجائے گا جس طرح انکے لیڈر کا لندن میں چلنا مشکل ہو چکا ہے اور اوپر سے انہیں یہ بھی تکلیف ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق کیوں دیدیا گیا حالانکہ سب سے زیادہ محب وطن اور درد دل والے یہی لوگ ہیں جو بیرون ملک بیٹھ کر محنت مزدوری کرکے پاکستان زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔
ن لیگ ماضی میں قومی اداروں پر حملوں کی تاریخ رکھتی ہے ان کے شر سے ججز بھی نہیں بچ سکے گزشتہ روز بھی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سیٹ سے اٹھ کر اپنے ارکان کو نعرے بازی اور گالم گلوچ کرنے کی ہدایت کی جو باعث افسوس ہے، ان لوگوں کو چاہیے کہ ایوان میں مہذب رویہ اختیار کریں تاکہ ہم معاشرے کو اچھا پیغام دے سکیں رہی بات بجٹ کی میں سمجھتا ہوں کہ مشکل نہیں بلکہ مشکل ترین حالات میں اورعالمی مالیاتی اداروں کی خواہشات کے برعکس حکومت نے عوامی بجٹ پیش کیا ہے جو قابل تعریف ہے حکومت نے موبائل کالز ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ میں ایک سو ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا فیصلہ واپس لے کر درست قدم اٹھایا ہے کیونکہ کرونا وبا کے دوران ٹیلی مواصلات پر دارومدار بہت بڑھ کیا ہے جبکہ آئی ایم ایف بجلی کے نرخ میں چھیالیس فیصد اضافہ کا مطالبہ کر رہا ہے جسے تسلیم نہ کیا جائے کیونکہ اس سے معاشی ترقی کا عمل رک جائے گا بجٹ سے قبل ہی ہمارے منافع خور دوکانداروں نے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کردیا تھا جسے روکا جائے بلخصوص گندم،چاول اور دالیں وغیرہ کی قیمتیں بڑھا دی گئی تھی جسکا کسان کی بجائے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور اب بھی وہ منافع خور مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کے لولے لنگڑے جواز پیش کر رہے ہیں جنکے خلاف سخت انتظامی کاروائی کی جائے کیونکہ مہنگائی پر قابو پانے سے مرکزی بینک شرح سود مزید کم کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا جس سے کاروباری اور روزگار میں اضافہ ہو گا اس وقت ملک میں ساٹھ لاکھ دکاندار کھربوں روپے سے زیادہ کی پرچون فروشی کر رہے ہیں جن سے ٹیکس وصول کیا جائے تاکہ ڈائریکٹ ٹیکس میں اضافہ، ان ڈائرکیٹ ٹیکس میں کمی اور قرضوں پر انحصار کم کر کے کے زریعے غربت پر قابو پایا جا سکے۔