افغان طالبان اور اشرف غنی اور اس کے اتحادی

Ashraf Ghani

Ashraf Ghani

تحریر : میر افسر امان

افغانستان میں افغان طالبان کے پانچ سالہ امارت اسلامیہ کے علاوہ ہمیشہ پاکستان مخالف حکومتیں رہیں ہیں۔ اِس وقت بھی پرانے نے تسلسل کی ہی مخلوط حکومت ہے۔اس میں بچے کچے بھارت نواز ،کیمونسٹ، قوم پرست،سیکولر، مذہب بیزرار عناسر جن میںشمالی اتحاد بھی شامل ہے کا مغلوبہ ہے۔ ہمارے نام نہاد دوست امریکا ،جسے ہمارے بذدل کمانڈو ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے لاجسٹک سپورٹ کے نام پر بری، بحری اور فضائی راستے بغیر کسی سے مشاورت کے دے کر پاکستان کی دوست حکومت طالبان امارت اسلامیہ کو حکومت ِ پاکستان کا مخالف بنا دیا تھا۔ یہ ایک تاریخی غلطی تھی۔ دونوں اسلامی ملکوں کے ساتھ غداری تھی۔ اس کی سزا دنیا میں ہی ڈکٹیٹر مشرف کو ملی۔ آخرت کے سزا اس کے علاوہ ہے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے پاکستان کے اسلامی آئین کے ساتھ غداری کرتے ہو دو دفعہ اسے توڑا۔اب پاکستان میں طرح طرح کے مقدمات کا سامنہ کرنا پڑھ رہا ہے۔ جب شامت اعمال آئی توپاکستان سے بیماری کابہانہ بنا کر بھاگ گیا ہے۔ملک سے باہر ذلت کی زندگی گزاررہا ہے۔ڈکٹیٹر پرویز مشرف کیا ، جس نے بھی مثل مدنیہ مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے ساتھ غداری کی۔ اللہ نے اس دنیا میں ہی اس سے بدلہ لیا۔

دنیا کو یہ بات سمجھ لینے چاہیے کہ افغان طالبان نے امریکا کو شکست دی۔ امریکا نے اپنے ٤٨ ملکوں کے فوجی اتحاد کے ساتھ افغانستان سے نکلنے کے لیے طالبان سے دوحہ میں امن معاہدہ کیا۔امریکا ستمبر تک افغانستان سے تمام فوجی اڈوں اور نیٹو فوجیں کے ساتھ نکل جائے گا۔یہ فاقہ مست افغان طالبان کے خون اور جہاد فی سبیل اللہ کی وجہ سے ہوا۔ موجودہ قوم پرست اشرف غنی حکومت امریکا کے ساتھ مل کر افغان طالبان کو ہستی سے مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں۔ مگر اللہ نے نہتے مجائدین کو عظیم فتح سے ہمکنار کیا۔ اللہ کی بات سچی ہوئی کہ وہ کمزروں کے ذریعے طاقتورں کو شکست دیتا رہتا ہے۔ کیا افغان طالبان نیٹو فوجیں جو جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے کوئی جوڑ نظر آتا ہے؟یہ مسلمانوں کی فتح ہے جو افغان طالبان کی وجہ سے ممکن ہوئی ۔ اس لیے امت مسلمہ کو افغان طالبان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ایک شاندار جشن منانا چاہیے۔

امریکا نے اپنی ڈمی اشرف غنی حکومت کو ایک طرف رکھ کر طالبان معاہدے سے امن معاہدہ کیا تھا۔ اسے معلوم ہے کہ فغانستان کے پچھتر فی صد حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ اشرف غنی حکومت نہیں چاہتی کہ امریکا اور ناٹو فوجیں افغانستان سے نکلیں۔ وہ طالبان پر حملے کر رہے ہیں۔ یہ لوگ تاریخ سے سبق نہیں حاصل کرتے ۔جب روس نے افغانستان کو ببرک کرمل کو اپنے ٹینکوں پر بیٹھا کر افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو ان ہی قوم پرستوںنے روس کے ساتھ ملک اسلام پسندوں اپنے ہی لوگوں کے ساتھ جنگ کی تھی۔ مگر افغان مجائدین جس میں ساری اسلامی دنیا کے مجائد شامل تھے دنیا کی سب سے بری مشین روس کو جہاد فی سبیل اللہ کی وجہ سے شکست فاش دی تھی۔ روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ چھ اسلامی ریاستیں اورمشرقی یورپ آزاد ہو تھا۔نفرت کی دیوار برلن ٹوٹی تھی۔اب افغان طالبان نے اسلامی دنیا کی مدد کے بغیر اپنے رب کی مدد اور اور زور بازو سے امریکا اور ٤٨ ملکوں کی نیٹوں فوجوں کو شکست دی ہے ۔ یہ قوم پرست لوگ امریکا کے ساتھ مل کر طالبان کو ملیا میٹ نہیں کر سکے۔ کیا امریکا کے جانے کے بعد ا یہ لوگ طالبان کے سامنے ٹھر سکتے ہیں؟؟نہیں بلکل نہیں!اس لیے ان لوگوں کو چاہیے کہ کہ تاریخ سے سبق حاصل کریں۔ افغانستان ،افغانستان میں رہنے والے سب لوگوں کا ملک ہے جس میں یہ شامل ہیں۔ اس کی آزادی سب کی آزادی ہے۔ غیر ملکی فوجوں کے سہارے کوئی بھی زیادہ دیر نہیں رہ سکتا۔ یہی دنیا کا چلن ہے۔

اس کامشاہدہ روس اور امریکا کا حشر دیکھ کرلینا چاہیے۔ اس لیے سب کو مل کر اپنے افغانستان کو ترقی کے سفر پر لگاناچاہیے۔گو کہ طالبان نے ان حضرات اور ان کے باہر سے آئے ہوئے روس اور امریکی حمایتیوں کو شکست فاش دی ہے۔ مگر پھر بھی طالبان کی طرف فراخ دلی اور رواداری ہے کہ ان کے لیے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے۔ طالبان نے کی آنے والی حکومت میں ان کے حصہ کے مطابق شیئر دینے کا کہا ہے۔کیا اشرف غنی اور اس کے ساتھ اور مریکا کی ہاں میںہاں ملانے والے فاتح طالبان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے زیر نگین ہو کر رہیں؟ تو یہ دنیا کی سب سے بڑی بے عقلی اور وقوفی ہے۔ فاتح فاتح ہوتا ہے۔ طالبان نے امریکا کو اپنا خون دے کر فتح حاصل کی ہے۔ اس کے ثمرات طالبان کا حق جو اسے ملنا چاہیے ۔

کیا روس ،امریکا،چین، بھارت اور پاکستان طالبان کے مامے لگتے ہیںکہ وہ روس کے شہر ماسکو کی ایک بیٹھک میںطے کرتے ہیں کہ ہم افغانستان میں طالبان کی امارت اسلامیہ کو نہیںمانتے؟ نہ مانوں پہلے رروس اور اب امریکا نے اپنے ٤٨ ناٹو اتحادیوں کے ساتھ بھی نہیں مانا تھا تم میں کچھ نے امریکا کی مدد بھی کی تھی۔ آ پ بھی نہ مانوںاور طالبان سے مذید ٹکرلے لو۔ہمیں تو افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے ایک تھنک ٹینک کے وبینار پروگرام میںکہا گیا کہ افغان طالبان الیکشن میں حصہ لیں بندوق کے زرو پر حکومت حاصل کرنے

٢
کی کوشش نہ کریں۔ الیکشن میں حصہ نہیں لیا تو خانہ جنگی ہو گی؟کیا طالبان نے امریکا اشرف غنی اور قوم پرستوں کو الیکشن میں شکست دی ہے۔ الیکشن میں امریکا اور اشرف غنی چھرلو پھراتے ہیں۔ جیسے ایک عرصہ سے مصر، شام لیبیا اوردنیا میں برسوں سے چھرلو پھراتے رہے ہیں۔ نہیں طالبان ان سے جنگ کر کے فتح حاصل کی ہے۔ جس نے افغان میں جنگ جیتی ہے وہ اپنے ملک میں کب اور کیسے الیکشن کراتے ہیں یہ ان پر چھوڑ دیں۔ اگر پاکستان کی کی بات کی جائے تو پہلے بھی پاکستان کے ایک ڈکٹیٹرنے افغان کے خلاف امریکا کی مدد کرکے اپنے ملک حالات خراب کیے تھے۔ افغانوں کو اپنے ملک کے معاملات خود طے کرنے دیں۔اگرکسی میں کچھ بھی اسلامی حمیت ہے تو طالبان کی مدد کرے۔ طالبان نے پہلے سے ہی اعلان کیا ہوا ہے کہ افغانستان میں جس جس گروپ کی جتنی پوزیشن ہے اس کے مطابق اسے قومی اسلامی حکومت میں حصہ دیا جائے گا۔ امریکانے طابان کی امارت اسلامیہ پر قبضہ کیا تھا۔

طالبان نے اپنے امارت اسلامیہ واپس حاصل کی ہے۔ اس لیے طالبان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ انہیں اپنے ملک میں اپنی مرضی کے حکومت قائم کرنے دیں۔ نہ پہلے طالبان نے کسی غیر ملک میں مداخلت کی تھی نہ اب کریں گے۔ اپنے تباہ حال ملک کو ترقی کے راستے پر لگائیں گے۔ پوست کی کاشست پہلے بھی ختم کی تھی اب بھی کریں گے۔ پہلے بھی وار لارڈز سے اسلحہ واپس لے کے امن وامان قائم کیا تھا اب بھی کریں گے۔اگر کچھ غلطیاں پہلے ہوئی ہیں تو طالبان ے اس سے سبق حاصل کر لیا ہے۔ اشرف غنی اوراس کے اتحادی جیسے قوم پرست غیرملکیوںکی مدد سے افغانستان پر عرصہ دراز حکومت کرتے رہے۔ اب طالبان کی باری ہے انہیں برداشت کریں۔ہر ملک کے عوام کو اپنے ملک کے باشندوںکی اکژیت کی مرضی کی حکومت قائم کرنے کا حق ہے۔ طالبان کو یہ حق ملنا چاہیے۔یہ ہردور کی حقیقت ہے اسے سب کو تسلیم کرنا چاہیے۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان