برازیل (اصل میڈیا ڈیسک) جنوبی امریکی ملک برازیل میں کورونا وائرس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد نصف ملین سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس حوالے سے برازیل دنیا بھر میں صرف امریکا سے پیچھے ہیں، جہاں کووڈ انیس کی وبا اب تک چھ لاکھ انسانوں کی جان لے چکی ہے۔
برازیلیہ میں حکام کے مطابق ہفتہ انیس جون کی شام اس لاطینی امریکی ملک میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے انسانی اموات کی مجموعی تعداد پانچ لاکھ کی علامتی سطح پر بہت اہم سمجھی جانے والی حد بھی پار کر گئی۔ برازیل کی مجموعی آبادی 210 ملین کے قریب ہے اور ہفتے کے روز وہاں کووڈ انیس کے مزید 2,495 مریض انتقال کر گئے۔
برازیل امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے دنیا کا وہ ملک جو اب تک اس عالمی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، امریکا ہے۔ امریکا میں کورونا وائرس اب تک چھ لاکھ سے زائد انسانوں کی موت کی وجہ بن چکا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ امریکا کی مجموعی آبادی برازیل کی آبادی سے 55 فیصد زیادہ ہے۔ اس کے باوجود برازیل میں اب تک پانچ لاکھ سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس ملک میں اگر کووڈ انیس کے مریضوں کی اموات میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا، تو جلد ہی برازیل امریکا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کورونا کے باعث سب سے زیادہ ہلاکتوں والا ملک بن جائے گا۔
برازیل میں ان نصف ملین شہریوں کی موت ایک بہت بڑا المیہ تو ہے، لیکن ساتھ ہی اس المیے سے دو باتیں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ کورونا وائرس ابھی تک اس ملک میں بہت بڑی تعداد میں اموات کا سبب بن رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ملکی صدر جیئر بولسونارو اب بھی طبی اور سائنسی ماہرین کی طرف سے کیے جانے والے مطالبات اور سفارشات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
صدر بولسونارو کی حکومت ملک میں اس وبا کی روک تھام کے لیے تسلی بخش اقدامات کرنے میں جس طرح ناکام رہی، اس پر صرف عوام کی طرف سے ہی احتجاج نہیں کیا جا رہا بلکہ ملکی سینیٹ کا ایک تحقیقاتی کمیشن بھی یہ چھان بین کر رہا ہے کہ آیا حکومت اس بحران کا مقابلہ کرنے میں بدانتظامی کا شکار رہی۔
یہ کمیشن اب تک کئی وزراء اور حکومتی مشیروں کو باقاعدہ بیانات قلم بند کروانے کے لیے طلب کر چکا ہے۔ اس دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ صدر بولسونارو نے بار بار بدلے جانے والے ملکی وزرائے صحت کو سائنسی اور طبی ماہرین کی سفارشات پر عمل درآمد سے روکا تھا۔
کورونا کی عالمی وبا کے دور ميں ملازمت کے مواقع ميں کمی، کام کاج کے محدود اوقات، اجرتوں ميں کٹوتی اور ديگر کئی وجوہات کی بنا پر دنيا بھر ميں اضافی دس کروڑ افراد غربت کی لکير سے نيچے چلے گئے ہيں۔ يہ انکشاف اقوام متحدہ نے اپنی تازہ رپورٹ ميں کيا ہے، جو بدھ دو جون کو جاری کی گئی۔
برازیل میں نئی کورونا انفیکشنز کی روزانہ تعداد اس وقت دوبارہ بہت زیادہ ہونا شروع ہو گئی تھی، جب مئی کے اوائل میں صوبائی گورنروں اور مختلف بڑے شہروں کے بلدیاتی سربراہان نے اس وبا کی وجہ سے عائد پابندیاں اور سماجی فاصلوں سے متعلق ضوابط میں نرمی کر دی تھی۔ ماہرین کے مطابق اس جنوبی امریکی ملک میں نئی انفیکشنز اور اموات دونوں کی یومیہ تعداد میں بہت زیادہ اضافہ انہی اقدامات کا نتیجہ ہے۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ برازیل کا اس وبا کے حوالے سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ اس ملک میں یہ عالمی وبا شروع سے قابو میں آئی ہی نہیں ۔ اس کی وجہ حکمرانوں کے رویے بھی بنے۔ وبائی امراض کی معروف ماہر کیرولین کُوتینیو کہتی ہیں کہ اس وقت برازیل میں صورت حال بہت نازک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے ایسے ویریئنٹ بھی پھیل چکے ہیں، جو بہت تیزی سے ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہوتے ہیں اور جو لوگوں کو ایک سے زائد مرتبہ متاثر کر سکتے ہیں۔
ہندو دھرم میں گائے کو ماں کا درجہ حاصل ہے۔ ہندو گھروں میں گائے کے گوبر سے فرش کی پُتائی کو متبرک سمجھا جاتا ہے۔ گائے سے حاصل ہونے والی پانچ چیزیں (دودھ، دہی، گھی، گوبر اور پیشاب) کافی اہم سمجھی جاتی ہیں۔ مودی حکومت نے ان پر سائنسی تحقیق کے لیے کروڑوں کے بجٹ مختص کیے ہیں۔
ایک سرکاری انسٹیٹیوٹ کی طرف سے مکمل کی گئی ایک حالیہ ریسرچ کے مطابق برازیل میں متاثرین کی اکثریت کورونا وائرس کے گیما ویریئنٹ کا شکار ہوئی۔ اس کے علاوہ وہاں برطانیہ میں دریافت کیا جانے والا کورنا وائرس کا ایلفا ویریئنٹ اور جنوبی افریقہ میں دریافت شدہ بِیٹا ویریئنٹ بھی تشخیص کیے جا چکے ہیں۔ اب تک وہاں کسی مریض میں اس وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ کی تشخیص نہیں ہو سکی۔
برازیل کی ریو گرینڈ فیڈرل یونیورسٹی کے کورونا کی وبا سے متعلق تجزیاتی نیٹ ورک کے سرکردہ رابطہ کاروں میں سے ایک اور معروف ماہر حیاتیات مارسیلو براگاٹے کا کہنا ہے کہ برازیل میں ہلاک شدگان کی تعداد نے پانچ لاکھ کی حد آج یا کل تو پار نہیں کی۔
وہ کہتے ہیں کہ کورونا کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد تو چند ماہ پہلے ہی نصف ملین کی حد عبور کر گئی تھی۔ مارسیلو براگاٹے کے مطابق اس وقت تک ملک میں ایسی اموات کی مجموعی تعداد تقریباﹰ چھ لاکھ بنتی ہے مگر اس تعداد کو اب تک کم کر کے بتایا جاتا رہا ہے۔