عساکر ترکی نے جمعة المبارک 18 جون 2021ء کو سمندسے سمندر میں مار کرنے والے پہلے بحری کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ترکی کے صدارتی دفاعی صنعت کے صدرنشین جناب اسمئیل دیمر نے کہا ہے کہ اس میزائل نے دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے،انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ایک جدید ترین ہتھیار ہے اور اپنے دشمن کو بہت سبک رفتاری سے ٹھیک مقام پر نشانہ بناسکتاہے اورہرموسم میں کارگرہے۔انہوں نے اس بحری میزائلی نظام کی خصوصیات گنواتے ہوئے بتایا کہ یہ انسداداقدامات،تجدیدہدف(target update)،دوبارہ حملہ(re-attack)،بعیداز نظراہداف(targets far outside visual range.) اورتنسیخ کار(task cancelation) کی صلاحیتوں کے علاوہ ڈی ٹھری روٹنگ سسٹم کی مزاحمت کی بدولت طے شدہ اور متحرک اہداف اورتنسیخ ہدف بذریعہ جدیدمربوط مواد(mission abort capability via modern data link.) کے خلاف نہایت موثر ہتھیارہے۔اس کی ایک اورخاص بات یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ ہدف پر چھوڑے جانے کے بعد بھی اس کا ہدف تبدیل کیاجاسکتاہے۔یہ عمودی و متوازی وسطحی تینوں اطراف سے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتاہے اوراسے برقیاتی لہروں سے جام بھی نہیں کیاسکتا ۔اس میزائل کا نام ”اتماجا” رکھاگیاہے ،اس لفظ کا مطلب ”شاہین”یا ”باز” نامی پرندہ ہے اور یہ تجربہ ترکی کے ضلع سنوپ کے مقام پر کیاگیاہے۔کامیاب تجربے کے اس موقع پر ترکی امیرالبحر عدنان اوزبال بھی موجودتھے۔مزید کچھ ضروری کاروائیوں کے بعد اس میزائلی نظام کو افواج اسلامیہ ترکیہ کے حوالے کردیاجائے گا۔یہ ہتھیار زمین سے زمین اور زمین سے سمندمیں مارکرنے کی صلاحیت رکھتاہے اور چھوٹی کشتیوں سے بھی دشمن پر چلایاجاسکتاہے۔یہ میزائل ترک دفاعی کمپنی ”میٹکسان”نے مکمل طورپر مقامی کارخانوں میں تیارکیاہے اوراس میں مکمل صلاحیتوں کاحامل طاقتورKTJ-3200انجن استعمال کیاگیاہے جس سے اس کی حربی استعداددوچندہو گئی ہے۔اس ہتھیارکی تنصیب کا نظام(The launch control systems for the missile)”اصلصان” نامی دفاعی ٹھیکیدارکمپنی نے تیارکیاجب کہ دشمن پر چلانے کا نظام ترکی بحریہ کے تحقیقاتی ادارے(Turkish Naval Research Center Command )نے تیارکیا۔اس کامیاب تجربے کے بعد ترکی کے صدر نے قوم کو مبارک بادکا پیغام ارسال کیاہے۔”راکسٹان”نامی کارخانے ،جس میں یہ میزائل تیارکیاگیا،اس کارخانے کے سربراہ نے کہاہے کہ آج سے ترکی بحری جہاز شکن میزائل بنانے والے ملکوں میں شامل ہو گیاہے۔اس موقع کی 58سیکنڈ کی ایک بصری رپوتاژبھی پیش کی گئی ہے۔
”اتماجا” نامی میزائل کے آغاز کاسفر 2007ء میں شروع ہوا جب ترکی کی وزارت دفاع نے مقامی ”روکستان”نامی دفاعی ہتھیارساز صنعت سے ایک معاہدے پر باقائدہ دستخط کیے۔ابتداََ یہ معاہدہ ترکیب بحریہ کے لیے زمین سے زمین پر مار کرنے والا کروزمیزائل تیارکرنے کاتھا۔کروزمیزائل کاتعلق میزائل کی جدیدترین عصری تکنالوجی سے ہے،کروزمیزائل انتہائی تیزرفتار،آوازکی رفتارسے بھی تیزتر،ہرموسم میں موثر،ہدف کونشانہ بنانے کی انہائی صلاحیت کے حامل،انتہائی کم بلندی پر پروازکرسکنے والے تاکہ برقی شعاعوں(ریڈار)سے بچ سکے اوراپنے ساتھ دشمن کو نیست و نابود کرنے کا بھاری بھرکم تباہ کن موادہمراہ لے جانے کی استعدادکے حامل ہوتے ہیں۔ستمبر2012ء تک ”روکستان”نے اپنا ابتدائی تجربہ گاہی ذمیہ کام مکمل کرلیااور اس قابل ہوگیاکہ ترک بحریہ کے تحقیقاتی ادارے کے ساتھ مل کر بیرونی تجربات کاآغازکر دیاجائے۔اس تحقیقی وتجرباتی سفرمیں میزائل کی ساخت میں جملہ ارتقائی تبدیلیاں کی جاتی رہیں اور اسے زمین سے زمین کے ساتھ ساتھ سمندرسے بھی چلائے جانے کی صلاحیت عطاکر دی گئی۔نیز اس تجرباتی مرحلے تک آتے آتے اب اس کی جسامت ایسی بنادی گئی کہ یہ بحری جہاز کے ساتھ ساتھ آبدوز سے،چھوٹی کشتیوں سے،چھوٹے ہوائی جہاز سے حتی کی ساحل سمندرپرپڑی بیٹریوں سے چلائے جانے کے قابل بھی بنادیاگیا۔اس میزائل کی پہلی آزمائش مارچ2017ء میں عمل میں لائی گئی۔اس کامیاب تجربے کے بعد 29اکتوبر2018کو ایک قانون سازاجازت نامے کے تحت ”روکستان”کو وسیع پیمانے پر ”اتماجا”کی پیداوارکامنصوبہ عطاکردیاگیااوراب بہت جلد یہ بحریہ کے حوالے کیاجائے گا جہاں امت مسلمہ کے دشمن اورمسلمانوں پر ظلم ڈھانے والے طاغوت واستعماری شیطانی طاقتیں براہ راست اس کے نشانے پر ہوں گی،ان شاللہ تعالی۔
جغرافیائی طورپر ترکی ایک ایسا ملک ہے جو براعظم ایشیااور براعظم ترکی کے عین درمیان میں واقع ہے۔اس کے ساتھ تین اطراف شمالی،مغربی اورجنوبی میں سمند کی وسعتیں موجزن ہیں۔ان وسیع و عریض بحری سرحدوں کے باعث ایک مضبوط اور مستعد بحری قوت کاہوناترکی کے وسیع ترین معاشی،تجارتی اور دفاعی مفادکے لیے ازحد ضروری ہے۔مزیدبراں جب سے ترکی میں اسلام پسندحکمران برسراقتدارآئے ہیں جس کے باعث ترکی کی ریاست اقتصادی قوت بن کر ابھری ہے تب سے سیکولرقوتیں اپنے دانت اور پنجے تیزکر کے ترکی کے درپے ہیں۔اسی لیے لگتاہے کہ ترکی نے اپنے بحری دفاعاعی قوت پر توجہ مرکوز کررکھی ہے اور ترکی کے اسلام پسندحکمران چاہتے ہیں کہ اس محاذپر ترکی خودانحصاری کی منزل حاصل کرلے اور دیگر اقوام کادست نگر نہ رہے۔اس مقصد کے لیے حکومت ترکی نے اپنے ملک کی صنعتی پیداواری و تحقیقاتی اٹھان کو بڑھوتری دی ہے اور مذکورہ بالا ہتھیار جو وقت کے تقاضوں سے کہیں بڑھ کرفوجی ضروریات کو پوراکرنے کی صلاحیت رکھتاہے اس کو مکمل طورپر اپنے ہی ملک میں تیارکیاہے۔ترکی کے اسلام پسند حکمران کی یہ روش دیگراسلامی ممالک کے لیے بھی قابل تقلید ہے۔سلام ہے ترکی عوام کو جنہوں نے انتخابات میں اکثریت کے ذریعے سیکولرحکمرانوں کو مسترد کیا اور اپنے روشن مستقبل پر مہر تصدیق ثبت کرکے اپنے آنے والی نسلوں کوعصری فتنوں سے بچالیا۔ترکی نے دفاعی خود انحصاری کا سفر 2007ء میں شروع کیاتھا،جو آہستہ آہستہ پہلے سے زیادہ کامیابیوں کے ساتھ دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرتاچلاجارہاہے۔ترکی پر اسلام پسند قیادت اگرآئندہ بھی برقرار رہی جس کاکہ قوی یقین ہے تو چندہی سالوں میں ترکی کاشمارسیکولرقوتوں کے مدمقابل بہت بڑی طاقتور اسلامی ریاست کی حیثیت اختیارکرجائے گا،ان شااللہ تعالی۔
ترکی کے اسلام پسندحکمران طیب اردگان نے 2022ء میں اپنی آبدوز بھی لانے کااعلان کیاہے اور دعوی کیاہے کہ بہت جلد وہ دفاعی پیداواری تعارف میں پر دنیاکے اولین ممالک میں شمار ہونے لگیں گے۔انہوں نے اپنے ایک خطاب کے دوران بتایا کہ وہ اپنی فضائیہ پر بھی بھرپور توجہ دے رہے ہیںاورآنے والے سالوں میں وہ طیارہ بردار بحری جہازبھی سمند میں اتاردیں گے،ان شااللہ تعالی۔دفاعی تجزیہ نگار جریدوں کے مطابق ترکی میں قائم سات دفاعی پیداروای کارخانے دنیاکے اعلی ترین ایک سوکارخانوں میں شامل ہیں۔ان سات کارخانوںمیں سے دو کارخانے ماضی قریب میں قائم کیے گئے ہیں اور وہ اپنی تکنالوجی اور قابل اعتماد ٹھوس پیداوار کے باعث بہت جلد دنیاکے بڑے بڑے کارخانوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔گزشتہ سال دنیاکے ایک سو اولین کارخانوں میں ترکی کے پانچ کارخانے شامل تھے اورایک سال کے اندران کی تعداد سات ہوگئی ہے۔یہ سب اسلام پسند حکمرانوں کی برکت ہے جو بددیانتی اورخیانت سے اپنی ہی قوم کو لوٹ کر اوراپنے ہی ملک کے خزانے خالی کرکے دوسرے ملکوں میں رقوم نہیں بھیجتے اور یہ اسلام پسند حکمران ہی ہیں جن کے اثاثے،جن کی اولادیں،جن کی جائدادیں اور جن کے مفادات و جذبات صرف اپنے ملک میں ہی ہیں اور کتنے ہی مشکل حالات کیوں نہ ہوں وہ اپنے ملک سے فرارہو کر یہودونصاری کی گود میں نہیں جابیٹھتے۔ترکی کے اسلام پسندحکمران وطن عزیزسمیت کل اسلامی دنیا کے عوام کے لیے بہت بڑاسبق ہیں۔امت مسلمہ کواپنے اور اپنی آمدہ نسلوں کی بہتری اورتحفظ کے لیے سیکولر،بددیانت،خائن ،نااہل،بدعقیدہ اورغداران ملت حکمرانوں کوایوان ہائے حکومت سے بے دخل کر کے تو اسلام پسند قیادت کو زمام اقتداردینی ہو گی۔
ایک قول رسولۖکامفہوم ہے کہ آپۖ نے فرمایا”میری امت کارزق نیزے کی انی کے نیچے رکھ دیاگیاہے”۔تاریخی شہرت کے حامل عثمانی امیرالبحر خیرالدین باربروسہ کا کہناہے کہ جس کاسمندروں پر قبضہ ہوگا دنیا پر اس کی حکومت ہوگی۔چنانچہ آج سیکولر ابلیسی طاقتوں نے کل سمندروں کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے اور انسانیت کو ناک تک اپنے مفادات کی قبر میں دفن کررکھاہے۔خلافت عثمانی کے ناطے ترکی پر امت مسلمہ کا یہ حسین قرض ہے کہ وہ مسلمانوں کی شیرازہ بندی کرے اور کل فرزندان توحیدکے لیے ایک مشترکہ سیاسی قیادت کی داغ بیل ڈالے۔سیکولرجمہوریت نے انسانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ظالم سرمایادارنہ نظام کے سامنے نوچنے،چیرنے،پھاڑنے اور کھانے کے لیے ڈال رکھاہے۔خلافت اسلامیہ کی تاسیس نو کل انسانیت کے لیے بادبہاری کی پیغام کنندہ ہوگی۔جینوااکارڈکازمانہ بیت چکااورخلافت علی منہاج نبوت عالم انسانیت کے دروازے پر دستک دیا چاہتی ہے اور خاورامن عالم طلوع ہونے کو ہے، انشااللہ تعالی۔