دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) وزيراعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ پہلے انتخابات کرائے جائیں گے پھر ریاست کا درجہ دینے پر غور ہو گا۔ تاہم ہند نواز کشمیری رہنما پہلے جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بھارتی دارالحکومت دہلی میں 24 جون جمعرات کی شام کو وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہند نواز کشمیری رہنماؤں کے ساتھ تقریباً ساڑھے تین گھنٹوں تک میٹنگ جاری رہی اور اس کے بعد جو بیانات سامنے آئے اس سے واضح ہوتا ہے کہ دہلی کی حکومت کشمیر میں جلد از جلد سیاسی عمل کا آغاز چاہتی ہے۔
میٹنگ کے فوری بعد حکومت نے جو بیان جاری کیا اس کے مطابق دہلی کی حکومت کشمیریوں سے” دل اور دہلی کی دوری کو ختم کرنا چاہتی ہے‘‘۔ تاہم کشمیری رہنماؤں کو یہ معلوم ہے کہ حکومت نے کشمیر کے ساتھ جو اعتماد شکنی کی تھی اس کا ازالہ اتنی جلدی ممکن نہیں۔
میٹنگ کے بعد حکومتی بیان میں کہا گيا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے رہنماؤں سے بات چيت میں اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جلد سے جلد اسمبلی انتخابات کے ذریعے جمہوری عمل کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے کشمیری رہنماؤں سے انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی میں تعاون کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔
حکومت نے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کا اپنا وعدہ پورا کرنے کی بھی بات دہرائی تاہم اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا ہے اور کہا کہ مناسب وقت پر ریاست کا درجہ فراہم کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم ہے اور اسے پورا کیا جائے گا۔
لیکن اطلاعات کے مطابق حکومت نے پہلے انتخابات کروانے کی بات پر زور دیا اور کہا کہ ریاست کا درجہ الیکشن کے بعد بحال کیا جا سکتا ہے، تاہم کشمیری رہنماؤں کا موقف تھا کہ پہلے کشمیر کو مکمل طور پر ایک ریاست کا درجہ دیا جائے پھر انتخابات کرائے جائیں۔
وزیر اعظم مودی کا سب سے زیادہ زور اس بات پر تھا کہ پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی حد بندی کا جو عمل جاری ہے اس میں سبھی جماعتیں تعاون کریں تاکہ انتخابات جل از جلد کروائے جا سکیں۔ تاہم بیشتر کشمیری رہنما اس تجویز کے بھی مخالف ہیں اور متعدد سیاسی جماعتوں نے کھل کر اس کا اظہار بھی کیا ہے۔
مودی کی حکومت نے جب دفعہ 370 کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو میٹنگ میں حصہ لینے والے بیشتر رہنماؤں کو جیلوں میں قید کر دیا تھا۔ تاہم گزشتہ روز جب وہ دہلی پہنچے تو سب کے چہرے ایسے حساس بشاش تھے جیسے ان کے ساتھ ماضی میں ایسا کچھ بھی نہ ہوا ہو اور وہ دہلی حکومت کے مہمان خصوصی ہوں۔
تقریباً سبھی رہنماؤں نے اپنے بیانات میں وہ مطالبے پیش کیے جو انہوں نے وزیر اعظم کے سامنے رکھے تھے اور یہ سب وہی باتیں تھیں جنہیں مودی حکومت پسند نہیں کرتی اور وہ کشمیری رہنماؤں کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
سابق وزير اعلی فاروق عبداللہ نے البتہ یہ بات زور دے کر کہی کہ بھارتی حکومت کے اقدام سے کشمیریوں کو کافی بڑا دھچکا لگا تھا اور مایوسی ہوئی ہے اس لیے اعتماد کو بحال کرنے کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ نے اس ملاقات کو ایک اچھے آغاز سے تعبیر کیا اور کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ دونوں ہی نے جموں و کشمیر میں جلد سے جلد انتخابات کروانے کی چاہت کا اظہار کیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بعض شرکاء نے البتہ میٹنگ میں یہ بات کہی کہ کاش پانچ اگست 2019 سے قبل اس طرح کی میٹنگ طلب کی جاتی تو کتنا اچھا ہوتا۔
محبوبہ مفتی ہی ایک ایسی رہنما تھیں جنہوں نے ہر موضوع پر کھل کر بات کی اور میٹنگ ختم ہونے کے بعد ان کے بنا لاگ لپیٹ کے بیانات سننے کے لائق تھے۔ انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں، “دفعہ 370 کا مسئلہ اٹھایا گيا جو ہماری شناخت کا مسئلہ ہے۔ ہم اس کے لیے مہینوں لگ جائیں یا پھر برسوں، لڑتے رہیں گے۔ یہ ہمیں بھارت سے ملا تھا جس میں ہمارے حقوق، زمین اور روزگار کی ضمانت دی گئی تھی اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، ” کشمیر میں دم گھٹنے کا ماحول ہے، بولنے سے پہلے ہی لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور اسے فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے پاکستان سے بات چيت کرنے پر بھی زور دیا اور بتایا کہ جب طالبان سے اور چین سے بات کر رہے تو کشمیریوں کے مفاد کے لیے پاکستان سے بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروبار شروع کرنے کے لیے ایل او سی کو کھولنے کی ضرورت۔”
بعض رہنماؤں کے مطابق بھارتی حکومت نے کشمیری رہنماؤں کی شکایتیں سننے کے بعد کئی طرح کی یقین دہانیاں کرائیں تاہم کسی بھی چیز کرنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا۔
بھارتی حکومت نے پہلی بار دہلی میں ہند نواز رہنماؤں سے اس طرز اور منہج پر بات کی ہے جیسے پہلے وہ کشمیر کے علیحدگی پسند حریت رہنماؤں سے بات کیا کرتی تھی۔ حکومت اس میٹنگ میں حریت رہنماؤں کو دعوت نہیں دی تھی جو کشمیر میں حق خود ارادیت کی مہم چلا تے ہیں اور وہ کشمیر کے تقریباً ہر حلقے میں مقبول ہیں۔
مبصرین کے مطابق حکومت اس سے علیحدگی پسندوں کو الگ تھلگ کرنا چاہتی ہے تاہم وہ اس میں کامیاب نہیں ہوگی۔