مصر (اصل میڈیا ڈیسک) مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اردن کے شاہ عبداللہ دوئم اور عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے بغداد میں اتوار کے روز منعقدہ سربراہی کانفرنس کو ”غیر معمولی علاقائی چیلنجز کے درمیان ایک واضح پیغام” قرار دیا۔
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اردن کے شاہ عبداللہ دوئم اور عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے سہ فریقی سربراہی کانفرنس میں سکیورٹی، معیشت، توانائی، سرمایہ کاری کے شعبوں میں باہمی تعاون کے فروغ اور مشرق وسطی کے بحران سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
عبدالفتاح السیسی کا کسی مصری صدر کا عراق کا گزشتہ تین عشروں کے درمیان یہ پہلا دورہ بھی تھا۔ سن 1990میں اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کی طرف سے کویت پر حملہ کے بعد مصر اور عراق کے درمیان تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔ تاہم حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کے عہدیداروں نے ایک دوسرے کے یہاں دورے بھی کیے ہیں۔ دوسری طرف اردن کے شاہ نے آخری مرتبہ سن 2019 میں عراق کا دورہ کیا تھا جو گزشتہ دس برسوں کے دوران ان کا بغداد کا پہلا دورہ تھا۔
کسی مصری صدر کا عراق کا گزشتہ تین عشروں کے درمیان یہ پہلا دورہ بھی تھا۔
تینوں ملکوں کے سربراہوں کی میٹنگ کے بعد عراق کے وزیر خارجہ فواد حسین نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ میٹنگ میں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ جن میں اقتصادی اور سیاسی تعاون، بڑے پیمانے پر صنعتی پروجیکٹووں اور میڈیسن اور زرعی کیڑے مار دواؤں کی تجارت جیسے امور شامل تھے۔
تینوں رہنماوں نے شام کے بحران، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تصادم اور یمن میں تصادم جیسے علاقائی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
توانائی کے شعبے میں تعاون بشمول اردن کے راستے عراق اور مصر کے درمیان گیس ٹرانسمیشن نیٹ ورک کے امکانات پر بھی بات کی گئی۔ فی الوقت عراق گیس اور بجلی کی اپنی گھریلو ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بڑی حد تک ایران پر انحصار کرتا ہے۔
تینوں رہنماووں نے کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پیدا اقتصادی بحران کے مدنظر تجارت کو فرو غ دینے کے لیے سرحدوں کو کھولنے کی ضرورت پر بھی گفتگو کی۔
اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے بتایا کہ ایتھوپیا کے عظیم الشان نشاۃ ثانیہ ڈیم پروجیکٹ پر بھی بات چیت ہوئی۔ مصر کو خطرہ ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے اس کی پانی کی سپلائی متاثر ہوسکتی ہے۔
ایمن صفادی نے مزید بتایا کہ تینوں ملکوں نے شام کے بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے اور پناہ گزینوں کی واپسی سے بھی اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا،”تینوں رہنماوں کی جانب سے واضح پیغام یہ تھا کہ ہمیں ان چیلنجز کا ایک ساتھ مل کر مقابلہ کرنا چاہئے۔”
میٹنگ کے بعد جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تینوں ملکوں نے سکیورٹی کی اہمیت اور دہشت گردی، منشیات اسمگلنگ اور سائبرجرائم پر قابو پانے کے لیے انٹلیجنس شراکت سے بھی اتفاق کیا۔
اس دوران مصر کے ایوان صدر کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”تینوں لیڈروں نے باہمی دلچسپی کے علاقائی امور بہ شمول تنازع فلسطین،دہشت گردی سے نمٹنے اور اقتصادی تعاون سے متعلق امورپر تبادلہ خیال کیا ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیاہے،”بات چیت میں ان رہنماؤں نے زیادہ اہمیت کے حامل علاقائی امور کے بارے میں تینوں ممالک کے درمیان مشاورت اور روابط کو مزید مربوط بنانے کی ضرورت پر زوردیا ہے۔”
مصطفیٰ الکاظمی، عبدالفتاح السیسی اور عبداللہ دوئم کے درمیان پہلا سہ فریقی اجلاس گذشتہ سال عمان میں ہوا تھا۔ ان کے درمیان اپریل میں اس سلسلے کا دوسرا اجلاس منعقد ہونا تھا مگر مصر میں ٹرین کے تباہ کن حادثے کے بعد اسے موخر کردیا گیا تھا۔
اتوار کے روز ہونے والی سربراہی میٹنگ میں گوکہ کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوا تاہم اس ملاقات کو بڑی حد تک خطے میں ایران کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔