امریکی (اصل میڈیا ڈیسک) جو بائیڈن اسرائیل کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ گرچہ ان کی انتظامیہ جوہری معاہدے میں دوبارہ شمولیت چاہتی ہے تاہم وہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کو قطعی برداشت نہیں کریں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے 28 جون پیر کے روز اسرائیلی صدر ریوین ریولن سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور ایران پر اپنے سخت موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گرچہ ان کی انتظامیہ 2015 کے جوہری معاہدے میں شمولیت کے لیے کوشاں ہے تاہم وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے باز رکھنے کے لیے پر عزم ہیں۔
اوول آفس میں اسرائیلی صدر ریولن کے پاس بیٹھے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا، ”میں آپ کو جو بتا سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میری نگرانی میں ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا۔”
امریکی صدر نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر ہونے والی بات چیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی، ”ان امور پر فیصلے میں ابھی کافی وقت ہے۔”
سن 2015 میں اوباما انتظامیہ کے دور میں ایران کے ساتھ ایک جوہری معاہدہ طے پا یا تھا جو مشترکہ جامع لائحہ عمل یا (جے سی پی او اے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں اس معاہدے سے امریکا کو یکطرفہ طور پر الگ کر لیا تھا اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اب یورپی ممالک کی مدد سے امریکا اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسرائیلی صدر نے جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ وہ ایران سے متعلق امریکی صدر کے بیان سے ”مطمئن” ہیں اور دونوں ملکوں کو، ”تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔” انہوں نے بائیڈن سے کہا،”دنیا میں امریکا سے عظیم اسرائیل کا کوئی دوست نہیں ہے۔”
اسرائیل کے صدر کے طور پر ریولن کا یہ آخری دورہ امریکا ہے کیونکہ نو جولائی سے جیوش ایجنسی کے چیئرمین اسحاق ہرزوگ عہدہ صدارت پر فائز ہورہے ہیں۔
اسرائیل کے صدر کے طور پر ریولن کا یہ آخری دورہ امریکا ہے کیونکہ نو جولائی سے جیوش ایجنسی کے چیئرمین اسحاق ہرزوگ عہدہ صدارت پر فائز ہورہے ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ بہت جلد اسرائیل کے نئے وزیر اعظم نیفتالی بینٹ سے ان کی ملاقات ہو گی۔ اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے بتایا تھا کہ فریقین اس ملاقات کے لیے ایک مناسب تاریخ پر بات چیت کر رہے۔
دائیں بازو کے سخت گیر یہودی قوم پرست رہنما نے 13 جون کو اسرائیلی وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا تھا۔ انہیں ان کی مخلوط حکومت میں شامل اعتدال پسند، بائیں بازو اور عرب جماعت کی حمایت حاصل ہے۔ اس سے قبل ان کے پیش رو بینجمن نیتن یاہو 15 برس تک وزیر اعظم رہے تھے۔
اتوار کے روز امریکا نے شام اور عراق کے سرحدی علاقوں میں ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں پر فضائی حملے کیے تھے جس کا صدر جو بائیڈن نے دفاع کیا ہے۔ ایوان نمائندگان کے بعض ارکان کا موقف ہے کہ کانگریس سے باضابطہ منظوری کے بغیر اس طرح کے فضائی حملے غیر قانونی ہیں۔ان اراکین کا کہنا ہے کہ ایسے حملوں سے قبل انہیں کانگریس سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔
تاہم اسرائیلی صدر سے ملاقات کے دوران جو بائیڈن نے کہا، ”مجھے وہ اختیار حاصل ہے۔ امریکا نے عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروپوں کے خلاف عسکری کارروائی کی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں سرگرم جنگجو عراق میں امریکی اہلکاروں اور تنصیبات کے خلاف ڈرون حملوں میں ملوث رہے ہیں اسی لیے جواباً ان کے خلاف فضائی حملے کیے گئے۔
امریکی فورسز پر راکٹ سے حملے پیر کے روز مشرقی شام میں ایک امریکی فوجی اڈے پر راکٹ سے حملے کیے گئے۔ حکام کے مطابق غالب امکان اس بات کا ہے کہ یہ راکٹ حملے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا نے کیے ہوں گے۔ امریکی فورسز نے بھی ان حملوں کا جواب دیا ہے۔
اس برس جنوری میں جو بائیڈن کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے اس خطے میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے خلاف اس نوعیت کی یہ دوسری بڑی کارروائی تھی۔ ایسی پہلی کارروائی فروری میں کی گئی تھی جس میں تقریباً 20 جنگجوؤں کی ہلاکت کی بات کہی گئی تھی۔ اسرائیل بھی ان عناصر کے خلاف شام میں وقتاً فوقتا ًحملے کرتا رہا ہے۔