ہماری سینیٹ نے دومسٹک وائلنیس بل پاس کر دیا۔ اس کو پاس کرنے میں نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف شامل ہے۔ تحریک انصاف کی ہی مغرب زدہ شریں مزاری ،جو انسانی حقوق کی سربراہ بھی ہیں نے یہ بل تیار کیا اور پارلیمنٹ میں بل ٹیبل بھی کیا۔صرف جماعت اسلامی پاکستان واحد جماعت ہے جو ہر وقت اسلامی شعار و اقدار کی حفاظت کے لیے تیار رہتی ہے، اس کے سنیٹر اور امیر جماعت اسلامی خیبر پختون خواہ مشاق احمد خان نے اس بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ ان ہی کی اپیل پر نون لیگ کے حمایتی سینیٹر ساجد میر ، عبدالکریم اور جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹرز نے بھی اس بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
ہم مسلمان ہیں،عمران خان کے ظاہری باتوں پر یقین کرتے ہیں کہ اسلام کی یہی تعلیمات ہیں۔ دلوں کے حال خدا جانتا ہے۔ ایک مسلمان جو بات کر رہا ہے اسے کو صحیح سمجھا جانا چاہیے۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ عمران خان مغرب میں کافی عرصہ رہ کر ان کی سماجی، تمدنی اور تقافتی اقدار سے متاثر ہے۔اس لیے اس کی غلطیوںسے در گزر بھی کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان سے محبت کرنے والے حکیم محمد سعید نے اپنے کتاب میں لکھا ہے کہ عمران خان کو یہودی پاکستان میں اپنے مقصد پورے کرنے کے لیے آگے لائیں
گے۔ ڈاکٹر اسرار نے بھی کچھ ایسے ہی تحفظات کا اظہار کیاتھا۔مولانافضل الرحمان نے بھی عمران خان کو شروع سے ہی یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتے آئے ہیں ۔ الیکشن میں ہارنے پر عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا کرمیدن میں اب بھی موجود ہیں۔عمران خان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ جبکہ جماعت اسلامی اس سے قبل پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے پانچ سال پورے کرنے کی حامی ہے۔ تاکہ ملک میں جیتنے والوں کو اپنا عرصہ مکمل کرنے کی عادت پڑے۔ سیاست میں دھاندلی دھاندلی کھیلنے سے باہر نکل کر پانچ سال عوام کی خدمت کرنے کے عادی ہو جائیں۔اسی لیے جماعت اسلامی مولانا فضل الرحمان سے علیحدہ بھی ہوگئی تھی۔مولانا فضل الرحمان عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے اسلام آباد پر اپنے کارکنوں کے ساتھ چڑھائی بھی کر چکے ہیں۔
سب خدشات کا اگر نمبر وارتجزیہ کیا جائے تو حکیم سعید کاخدشہ کہ یہودی پاکستان میں اپنے عزاہم کے لیے عمران خان کو آگے لائیں گے صحیح نہیں۔ حکیم سعید کا خدشہ اس لیے صحیح نظر نہیں آتا کہ ایک تو عمران خان جمائنہ کو پہلے مسلمان بنا کر اس کے شوہر بنے ۔ پھر اس سے اُولاد بھی ہوئی۔ عمران خان کے مطابق ہمارے پاکستانی تنگ نظر معاشرے نے جمائنہ کو اپنے ہاں جمنے نہیں دیا ۔ وہ بدل ہو کر مجھ علیحدہ ہو کر لندن چلی گئی۔ اگر حکیم کا خدشہ صحیح مان لیا جائے تو پھر جمائنہ عمران کے ساتھ چمٹی رہتی اور یہودیوں کے عزاہم پورے کرنے میں معاون ثابت ہوتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ ڈاکٹر اسرار کی نشان دہی بھی صحیح نظر نہیں آتی کہ اسلام تو کہتا ہے کہ اگر کوئی اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے تو اس پر خاہ مخواہ شک کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔مولانا فضل ا لرحمان صاحب کو خیبر پختونہ خواہ میں عمران نے دو دفعہ شکست دی ۔اس لیے ان کا مؤقف بھی مذہبی کم اور سیاسی زیادہ نظر آتا ہے۔
ہاں عمران خان کے ارد گرد اکثر ساتھی مغرب سے متاثر ہیں۔ آزاد خیال برگر ر فیملی والے ہیںکچھ گانے بجانے والے اورپوپ سنگر ہیں۔ عمران کے جلسوں میں خواتین ناچتی اور گاتی رہیں۔ گانے والے گویے اپنے گانوں کے ذریعے عوام کو عمرن خان کے ساتھ ملانے اور انتخابات جیتنے کا سب بنے تھے۔ ان ہی میں سے ایک، ڈومسٹک وائلنیس بل کو بنانے اور ٹیبل کرنے والی شریں مزاری سربراہ انسانی حقوق بھی مغرب زدہ ہے۔ جیسے خمینی کے انقلاب کے وقت اس کے ساتھ غیر اسلامی لوگ، شہنشاہ رضا شاہ پہلوی مخالف اور امریکا کی مخالفت کی وجہ اکھٹے ہوئے تھے۔ اسی طرح عمران خان کے ساتھ اسلام سے محبت میں کم، مگر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی عوام مخالف کاموں کی وجہ سے جمع ہوئے تھے۔ خمینی نے بتدریج اسلام سے محبت نہ رکھنے والوں کو ایک ایک کرے علیحدہ کیا تھا۔
عمران خان نے نہیں ایساکیا۔ ہاں کچھ عناصر علامہ اقبال کے خواب، قائد اعظم کے اسلامی وژن اور مدینہ کی اسلامی ریاست اور کرپشن فری پاکستان والے عوام بھی ہیں۔ اب اقتدار میں آکر عمران خان کا کام تھا کہ اسلامی شعار اور اقدارکی حفاظت کرتا ہے۔ سود کے نظام کو ختم کر کے شراکت کی بنیاد پر کاروبار کو استوار کرتا، انگریزی قانون کی جگہ اسلامی قاضی کورٹ بناتا۔ جس کی وجہ سے عوام کو سستا اورفوری انصاف ملتا ۔ کرپشن کے مقدموں کاجلد فیصلہ ہوتا ہے۔ کرپٹ لوگوں سے کرپشن کے پیسے واپس غریب عوام کے خزانے میں داخل ہوتے۔ مہنگاہی پر کنٹرول حاصل کرتا۔ تو کہیں جا کر عمران خان کی ظاہری اسلام سے محبت پر اعتماد کرنے والے حلقے مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کی گردان پر اعتبار کرتے ۔مگرعمران خان ہر گزرتے ہوئے دونوں میں اس سے دُور ہوتے جا رہے ہیں۔ عمران خان سمیت ہمارے سارے حکومتوں عیسائیوں کی غلامی میں مبتلا رہی ہیں۔ ہمارے ملک کے مغرب کے ذہنی غلام، مغربی تہذیب سے متاثر، مغرب کی نقالی کرنے والے اور بھارت کے لادینی سیکولر نظام کے دلدادہ مقامی لوگ، حکومتی اہلکار کو اسلام دشمن اقدام کرنے میں معاون ثابت ہوتے رہتے ہیں۔اسی لیے تو حکیم الامت شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبال حکمرانوں کو صحیح راستہ بتانے کے لیے نے کہا تھا:۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ ۔تمدن میں ہنود یہ مسلمان ہیں ! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
مغربی تہذیب چاہنے والے، گانے بجانے والے ، برگر فیملی اور سیکولر نظام حکومت چاہنے والے عمران کے ساتھی عالی قوانین اور اسلامی شعار کی مخالفت میں قانون سازی کر نے میں مدد گار ہوتے ہیں۔ پھر عیسائیوں کے قرضوں میں پھنسی ہوئی ہماری حکومتیں ان کے دبائو میں آکرایسی حرکتیں کر نے پر مجبور کر دی جاتی ہیں۔مثلاً سب سے پہلے مغرب کے غلام ڈکٹیٹرایوب خان نے امریکا کے دبائو میں آکر مسلمانوں کے عالی قوانین تبدیل کیے ۔ ذوالفقار علی بھٹو تو تھے ہی روشن خیال مادر بدر آزاد حکمران۔ مگر اللہ نے اس سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلا کر اس کے بخشش کے سامان مہیا کر دیے۔ یہ اللہ کی کی طرف سے جسے چاہے دے۔ڈکٹیٹر ضیا الحق نے پاکستان کے انگریزوں کے ١٩٣٥ء کے رائج قانون میں کچھ اسلام کے حق میں تبدیلی کی تھیں۔ جس کی مخالفت کچھ مسلکی بنیاد پر اورکچھ مغرب زدہ عناصر نے کی۔ بعد کی پیپلز پارٹی کی حکومتیںبھی بھٹو کے ہی نقشے قدم پر چلتی رہیں۔آصف علی زرداری تو امریکا کو ایٹمی پرگروام سیز کرنے کی آفر تک کر چکے ہیں۔موجودہ پرچی چیئرمین بھی روشن خیال اور مغرب کے ایجنڈے پر ہی گامزن ہے۔ نون لیگ نے ووٹر لسٹ سے قادیانیوں سے متعلق حلف نامہ کو ختم کرنے کی کو ناپاک کوشش کرچکی ہے۔
نواز لیگ حکومت ایک قدم آگے بڑھ کر عورتوں کے حقوق کے نام پر بل تیار کیاتھا۔ جس میں مغرب کے معاشرے جس میں عورت مرد برابر کمائی کرتے ہیں والا قانون نافذ کرنے کی کوشش کی ۔جس کی ایک شک یہ بھی تھی کہ عورت پر تشدد کرنے والے مرد کو مغرب کی طرح کڑا پہنا دیا جائیگا۔ اس میں نون لیگ کی طلاق شدہ، میراجسم میری مرضی والی آئنٹیاں پیش پیش تھیں۔ جب بھی مرد عورت پر تشدد کر تا ، مرد کو جیل بھیج دیاجائے گا۔ جس اسلامی معاشرے میں مرد پر عورت کی کفالت کی مکمل ذمہ داری ہے۔ اس معاشرے میںایسا مغربی قانون کیسے چل سکتا ہے۔ ہاں اس قانون کے نفاذ سے طلاقیں عام ہو جاتی۔ مغرب کی پاکستان میں اسلامی معاشرے کو تیس نیس کرنے کی خواہش پوری ہو جاتی۔ اب عمران خان حکومت بھی مغربی چال میں پھنستی جاتی نظر آ رہی ہے۔اسلام نے مرد عورت کے تعلقات اگر خراب ہو جائیں تو ہدایات دی ہیں۔ پہلے دونوں کے درمیان ایک ایک ثالث مقررکر کے صلح کی کوشش کرنے کا کہا ۔ مرد عورت کے بستر الگ کرنے کا کہا۔ مرد جو عورت کی کفالت کرتا ہے کو ہلکی مار کی اجازت دی۔ پھر قاضی کو ایک دوسرے کو علیحدہ کرنے کی اجازت دی۔ شیطان جب اپنے چیلوں سے شام کو پراگریس ر پورٹ لیتا ہے ۔ تو اس سے خوش ہوتا ہے جو میاں بیوی میں جدائی ڈال کر آتا ہے۔ طلاق جائز ہے مگر اللہ کو پسند نہیں۔ مغرب کا معاشرہ طلاق عام ہوجانے کے وجہ سے تباہ و برباد ہو گیا ہے۔عمران خان کے مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگ اسلامی ریاست کہاں بننے دیں گے۔اسی کو شاعر اسلام علامہ اقبال نے اس طرح بیان کیا تھا:۔
تمھاری تہذہب اپنے خنجر آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
صاحبو! عمران خان نے الیکشن لڑنے کے وقت کے اپنے سارے سابقہ وعدوں کو پس پشت ڈال کر سرمایا داروں الیکٹبلز اور ناکام پارٹیوں کے کرپٹ عناصر کو ملا کر انتخابات تو جیت لیے۔ سادہ اکثریت نہ ملنے پر اسی ایم کیو ایم کو ساتھ ملایا جس کے خلاف لسٹ لے لندن گئے تھے۔ جو غدار وطن الطاف حسین کی باقیات ہیں۔ پاکستان کے غدار شیخ مجیب کی طرح چھ نقاط والے اختر مینگل کو ساتھ ملایاجو مطالبات پورے نہ ہونے کے بہانے علیحدہ ہو گئے۔اسی قاف لیگ کو ساتھ مایا جس کا نام لے لے کرکرپٹ کہا کرتے تھے ۔شیخ رشید کو وزیر داخلہ بنایا جس کو چپڑاسی رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اب چوںچوں کے مربے کے ساتھ مل کر مدینہ کی اسلامی ریاست بنانے کے اعلانات کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں۔ اسلامی نظام تو صرف جماعت اسلامی ہی نفاذ کر سکتی ۔جس نے اس کام کے لیے ٹیم تیار کی ہوئی ہے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے مطابق ایٹمی پروگرام پر عمران خان کا بیان،آئی ایم ایف کا عوام دشمن بجٹ،وقف املاک ایکٹ، یکساں نصاب تعلیم کے بہانے سیکولر نصاب تعلیم کے خلاف بیان جاری کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ڈومسٹک وائیلنیس بل پاس کرنے والی مغرب کی دلدادہ خاتون اور اس جیسے دیگر مغرب زدہ عناصر سے جان چھڑائے ۔ ورنہ اپنی بربادی کے دن گننا شروع کر دے۔ اس سے پہلے ڈکٹیٹر مشرف پاکستان کو روشن خیال بنانے والے سے سبق حاصل کرے۔ ڈومیسٹک وائیلینس بل کے تحت مسلمان معاشرے میں جن افراد کا وہ کفیل ہے ۔ جن کے لیے سارا دن محنت مزودری کر کے ان کے آرام اور سہولت کے لیے مارا ماراپھرتا ہے ۔اس کو اجازت نہیں کہ وہ بیوی، بیٹی، بہن، ماں، بیٹے اور گھر کے دیگر افراد جو اس کے گھر میں رہ رہے ہیںجن کا وہ کفیل ہے، کسی ناگوار حرکت پر ڈانٹ تک نہ سکے۔طنز نہیں کرسکے۔گھور کر دیکھ نہیں سکے ۔ جگت نہیں لگا سکے ۔ یہ بل ہمارے مسلمان معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا۔ اس بل کو پارلیمنٹ سے پاس نہیں ہونا چاہیے۔