افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی نے افغانستان میں تعینات تقریباً 570 فوجیوں پر مشتمل اپنے آخری دستے کو بھی واپس بلا لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں جرمنی کا بیس سالہ مشن بھی اختتام کو پہنچ گیا۔
ایسے وقت جب امریکا افغانستان سے آئندہ ستمبر تک اپنے فورسز کے انخلا کے عمل میں مصروف ہے، جرمنی نے 29 جون منگل کے روز فوجیوں کا اپنا آخری دستہ واپس بلا لیا۔ گزشتہ ہفتے ہی جرمن وزیر دفاع نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں تقریباً 570 فوجی اب بھی تعینات ہیں تاہم بدھ کے روز یہ سب واپس جرمنی پہنچ گئے۔
جرمن افواج کا آخری دستہ افغانستان کے شمالی شہر مزار شریف سے بذریعہ پرواز جرمنی روانہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں تقریباً دو عشروں پر مشتمل اس کے مشن کا اختتام ہو گیا۔ اس آخری دستے میں کے ایس کے سے وابستہ اسپیشل فورسز کے وہ ارکان بھی شامل تھے جنہیں انخلا کے دوران کیمپ کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
جرمن وزیر دفاع اینگریٹ کریمپ کارین باوا نے اس واپسی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جرمن فوجی اب اپنے گھر واپس آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”اس کے ساتھ ہی ایک تاریخی باب کا خاتمہ ہوا۔ یہ ایک ایسی مشکل ترین تعیناتی تھی، جس نے ہمیں چیلینجز دیے اور تشکیل میں مدد بھی کی۔”
انہوں نے افغانستان میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور دلجمعی کے ساتھ اپنے فرائض پورا کرنے کے لیے فوجیوں کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر دفاع نے اس بات کا بھی وعدہ کیا کہ وہ اس مشن کے حوالے سے اس پہلو پر بھی بات چیت کریں گی کہ اس میں، ”کیا اچھائی تھی، کیا اچھا نہیں تھا اور ہم نے اس سے کیا سبق سیکھے۔”
جرمن مسلح افواج نے بھی یہ کہتے ہوئے افغانستان سے اپنے مکمل انخلا کی تصدیق کر دی تھی کہ اس کے، ”آخری فوجیوں نے بھی افغانستان کو الوداع کہہ دیا ہے۔” فوج نے اس سے پہلے تک سکیورٹی وجوہات کے سبب انخلا سے متعلق اپنے منصوبے کو افشا نہیں کیا تھا اور بس اتنا کہا گیا تھا کہ انخلا کا عمل منظم اور تیزی سے جاری ہے۔
چار جنگی جہاز مزار شریف چل کر راستے میں طبلیسی میں رکے اور پھر بدھ کے روز جرمنی میں پہنچ گئے۔ جرمنی میں ان تمام فوجیوں کو دو ہفتے کے لازمی قرنطینہ میں رہنا ہوگا اور کورونا کی جانچ بھی کی جائے گی۔
سن 2001 میں جب امریکا نے نیویارک کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملے کے بعد افغانستان پر چڑھائی کی تو اسی دوران جرمنی نے بھی افغانستان اپنے فوجی بھیجے تھے اور پہلا جرمن دستہ جنوری 2002 میں کابل پہنچا تھا۔
ابتدا میں طالبان کے ساتھ بر سر پیکار ہونے کے بجائے جرمن افواج کو ملک کو مستحکم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس لڑائی کے دوران گزشتہ کئی برسوں تک افغانستان میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ تک جرمنی فوجی تعینات رہے۔ اس کے لیے جرمنی کو تقریباً 15 ارب ڈالر کی خطیر رقم بھی خرچ کرنی پڑی اور 59 جرمن فوجی ہلاک بھی ہوئے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے جرمنی کا یہ طویل ترین، سب سے زیادہ مہنگا اور خونریز عسکری مشن تھا۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2009 کے بعد سے اب تک اس لڑائی میں 39 ہزار عام افغان شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ اس میں عوام کی ایک بڑی تعداد طالبان کے حملوں میں ہلاک ہوئی تاہم بیرونی افواج کی کارروائیوں میں بھی ایک بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک ہوئے۔ اس جنگ میں امریکا کے بھی دو ہزار 442 فوجی مارے گئے۔
افغانستان میں بیرونی افواج کے انخلا کے درمیان اسلام پسند عسکریت گروپ طالبان کے حملوں کی ایک لہر سی چل پڑی ہے جس کی وجہ سے حکومتی فورسز کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ نے اس صورت پر خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ شدت سے جاری اس عسکری مہم سے جنگ زدہ افغانستان میں سیاست، سلامتی اور امن کے عمل میں ہونے والی پیش رفت کے الٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔