کینیڈا میں ملکہ وکٹوریا اور ملکہ الزبتھ کے مجسمے گرا دیے گئے

Protest

Protest

وینیپگ (اصل میڈیا ڈیسک) کینیڈا میں سابق مقامی اسکولوں سے بچوں کی اجتماعی قبروں کی دریافت پرغم و غصے کا اظہار کرنے والے مظاہرین نے صوبے مانیٹوبا کے دارالحکومت وینیپگ میں نصب برطانوی ملکہ وکٹوریا اور ملکہ الزبتھ کے مجسمے گرا دیے۔

مشتعل مظاہرین نے برطانوی بادشاہت کی علامت ان مجسموں کو گرانے سے پہلے ’’نو پرائیڈ ان جینوسائیڈ‘‘ یعنی ‘نسل کُشی پر کوئی فخر نہیں‘ کا نعرہ لگایا۔ یہ کارروائی کینیڈا میں منائے جانے والے ’کینیڈا ڈے‘ کے روایتی جشن کے موقع پر عمل میں لائی گئی۔

واضح رہے کہ اس سال کینیڈا میں متعدد سابق اسکولوں سے بچوں کی اجتماعی قبروں کی دریافت کے بعد معاشرے میں پھیلی ہراس اور شرمندگی کے سبب بہت سے شہروں میں ‘کینیڈا ڈے‘ کے روایتی جشن کو منسوخ کر دیا گیا۔ عوام سمیت حکام اپنی نو آبادیاتی تاریخ کا اس انداز میں سامنے کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے دریں اثناء کہا کہ اس سال ‘کینیڈا ڈے‘ سوچ بچار اور ماضی پر غور و فکر کا دن ہے۔

کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا اور ساسکیچیوان کے سابقہ مقامی اسکولوں سے قریب ایک ہزار بغیر نشان والی قبریں دریافت ہوئی ہیں جو بنیادی طور پر کیتھولک چرچ کے زیر نگرانی چل رہے تھے اور ان کی مالی اعانت کینیڈا کی حکومت کرتی تھی۔

165 سال تک اور دور حاضر میں 1996 ء میں کینیڈا کے اسکولوں میں مقامی بچوں کو ان کے گھر والوں سے علیحدہ کر دیا جاتا تھا، انہیں خوراک سے محروم کر کے کم غذائیت کا شکار بنانے کے ساتھ ساتھ ان کا جسمانی اور جنسی استحصال بھی کیا جاتا تھا۔ مقامی بچوں کے ساتھ اس ناروا سلوک کو ‘ ٹروتھ اینڈ ریکنسیلییشن کمیشن‘ نے 2015 ء میں ‘ ثقافتی نسل کُشی ‘ قرار دیا تھا۔

کینیڈا میں قبائلی افراد کی نمائندگی کرنے والی ایک تنظیم فرسٹ نیشن نے حال ہی میں کہا تھا کہ برٹش کولمبیا میں قبائلی بچوں کے لیے ایک سابقہ بورڈنگ اسکول کے قریب واقع نامعلوم قبروں سے مزید 182 افراد کی باقیات ملی ہیں۔ جس کے ساتھ ہی نامعلوم قبروں سے دریافت ہونے والی باقیات کی تعداد اب ایک ہزارسے زائد ہو گئی ہے۔

ان باقیات کا ایک سابقہ بورڈنگ اسکول کے اطراف میں رڈرا ڈیٹیکشن آلات کے ذریعہ پتہ لگایا گیا تھا۔ یہ اسکول بھی ایک چرچ کے زیر انتظام چلتا تھا۔ اُدھر کارن بک کے قریب واقع سینٹ ایجین مشن اسکول سن 1912میں شروع ہوا تھا اور 1970کی دہائی کے اوائل تک چلتا رہا۔ یہ بھی کیتھولک چرچ کے زیر انتظام تھا۔

قبائلیوں کی ایک انجمن لوور کوٹانے بینڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ تلاش کی مہم کے دوران تقریباً تین سے چار فٹ گہری 90 نامعلوم قبریں دریافت ہوئیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان قبروں میں پائی جانے والی باقیات ٹونازا نیشن اور قریب رہنے والے دیگر فرسٹ نیشن قبائلیوں کی ہیں۔

صوبے مانیٹوبا کے دارالحکومت وینیپگ میں مظاہرین نے صوبائی اسمبلی کے سامنے ملکہ وکٹوریا کے مجسمے گرتا دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ بیشتر مظاہرین نے نارنجی رنگ کا لباس پہنا رکھا تھا اور برطانوی ملکہ کے نیچے گرے ہوئے مجسمے کو انہوں نے لاتیں ماریں اور سرخ رنگوں سے اپنے ہاتھوں کو رنگ کر مجسموں پر پھیرا۔

مختلف حصوں میں احتجاج
کینیڈا بھر میں مشعل بردارجلوس اور ریلیاں نکالی گئیں جن میں اکثر شرکا نے نارنجی لباس پہن رکھے تھے اور اس طرح اب نارنجی رنگ کا لباس کینیڈا میں نسل پرستانہ تاریخی مظالم کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کی علامت بن گیا ہے۔

اُدھر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ‘کینیڈا ڈے‘ کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا،” سابقہ اسکولوں سے بچوں کی باقیات کی دریافت نے ہمیں بجا طور پر اپنے ملک کی تاریخ کی ناکامیوں کی عکاسی پر غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘ جسٹن ٹروڈو نے ساتھ یہ بھی کہا کہ ”مقامی لوگوں اور بہت سے دیگر افراد کے ساتھ ابھی بھی کینیڈا میں غیر منصفانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔‘‘

دریں اثناء برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے ایک ترجمان نے کہا کہ لندن حکومت برطانوی ملکاؤں کے مجسموں کی توہین کی سخت مذمت کرتی ہے۔ اس بیان میں کہا گیا،” ان المناک دریافتوں کے بعد گرچہ ہمارے جذبات مقامی آبادی کے ساتھ ہیں اور ہم ان مسائل کے بارے میں سنجیدگی سےغور کر رہے ہیں اور کینیڈا کی حکومت کے ساتھ مقامی باشندوں کے مسائل کے حوالے سے رابطے میں بھی ہیں۔‘‘