شام (اصل میڈیا ڈیسک) انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ مشرقی شام کے علاقے دیرالزور میں امریکا کے ایک بڑے فوجی اڈے پر اتوار کی رات کو راکٹوں سے حملے کیے گئے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ حملے ایرانی حمایت یافتہ جنگجوؤں نے کیے ہیں۔
شام میں سرکاری میڈیا، انسانی حقوق کے ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس اور امریکی حمایت یافتہ جنگجوؤں کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ مشرقی شام میں اتوارکو رات گئے امریکی فوجیوں کی ایک رہائش گاہ پر قریبی علاقوں سے حملے کیے گئے، جبکہ امریکی فوج نے اس طرح کے کسی حملے کی تردید کی ہے۔
شام میں امریکی فوجی اتحاد کے ترجمان کرنل وین ماروٹو نے ایک ٹوئٹ میں تحریر کیا،” ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ آج شام میں امریکی فورسز پر راکٹوں سے حملے کیے گئے۔”
قبل ازیں اتوار کے روز امریکی حمایت یافتہ اور کرد سربراہی میں کام کرنے والی سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نے کہا تھا کہ شام کے مشرقی صوبے دیر الزور میں العمر آئل فیلڈ پر دو راکٹ داغے گئے، حالانکہ ان سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ راکٹ کہاں سے داغے گئے تھے۔
برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ یہ راکٹ دیر الزور صوبے کے علاقے میادین سے داغے گئے تھے، جس پر ایرانی حمایت یافتہ جنگجوؤں کا کنٹرول ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس اے این اے نے بھی العمرآئل فیلڈ پر دو راکٹ داغے جانے کی اطلاع دی ہے۔
ایک ایرانی حمایت یافتہ خبر رساں ایجنسی اے بی این اے نے کہا ہے کہ شام میں امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈے پر راکٹ حملوں کے بعد”زبردست دھماکے” ہوئے۔
العمر آئل فیلڈ پر ہونے والے ان راکٹ حملوں سے صرف چھ روز قبل ہی مشرقی شام میں امریکی فوج پر اسی طرح کے حملے کیے گئے تھے۔
گزشتہ ہفتے کے حملہ سے ایک دن قبل ہی امریکی فضائیہ کے طیاروں نے شام اور عراق کی سرحد کے قریب فضائی حملے کیے تھے۔ پینٹاگون کا کہنا تھا کہ سرحد کے قریب ان تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا جہاں سے مبینہ طور پر ایرانی حمایت یافتہ جنگجو عراق میں ڈرون حملے کرتے ہیں۔
شمال مشرقی شام میں سینکڑوں امریکی فوجی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے رہے ہیں۔
ایرانی حمایت یافتہ مشرق وسطی کے ہزاروں جنگجو اس وقت شام کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد عراق سے ملحقہ سرحد کے قریب تعینات ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق ایرانی حمایت یافتہ جنگجو شام کے صدر بشار الاسد کی فوج میں شامل ہیں۔ ان کی موجود گی کی وجہ سے گزشتہ دس برسوں سے جاری تصادم میں اسد حکومت کو فائد ہ ہورہا ہے۔