افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے آغاز کے بعد سے طالبان عسکریت پسندوں نے ایک بڑے شہر پر قبضہ کرنے کی پہلی کوشش کے تحت قلعہ نو پر زبردست حملہ کیا ہے۔ اس دوران ایران نے اچانک امن مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان نے بدھ کے روز مغربی بادغیش صوبے کے دارالحکومت قلعہ نو پر حملہ کیا ہے۔ صوبائی گورنر حسام الدین شمس نے بتایا،”وہ شہر کے کچھ حصوں میں داخل ہوگئے تاہم کچھ دیر کے بعد دشمن کو سخت مزاحمت کاسامنا کرنا پڑا۔”
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بتایا ہے کہ افغان اسپیشل فورسز نے طالبان حملہ آوروں پر جوابی فضائی حملے کیے اور انہیں واپس لوٹنے پر مجبور کردیا۔
قبل ازیں خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے شمس کے حوالے سے بتایا تھا کہ قلعہ نو کے تمام اضلاع کا سقوط ہوگیا ہے۔ دیگر صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان پولیس ہیڈکوارٹر میں داخل ہوگئے اور بادغیش سینٹرل جیل سے دو سو قیدی فرار ہوگئے۔ مقامی باشندے اپنی جان بچانے کے لیے پڑوسی صوبے ہرات کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ موٹر سائیکلوں پر سوار طالبان جنگجو شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب عسکریت پسندوں نے شمالی افغانستان کے دیہی اضلاع پر قبضے کرلیے ہیں اور ہرات صوبے کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں۔
افغان وزارت دفاع کے ترجمان فواد امن نے عسکریت پسندوں کو کھدیڑ دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ طالبان نے قلعہ نو کی جنگ کے حوالے سے عوامی طورپر فی الحال کوئی بیان نہیں دیا ہے۔
افغان وزارت دفاع نے دعوی کیا ہے کہ عسکریت پسندوں کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے جبکہ حکومت نواز فوج کے درجنوں اہلکار بھی مارے گئے ہیں۔
بدھ کے روز جس وقت افغانستان میں ایک طرف جنگ جاری تھی اسی وقت پڑوسی ملک ایران طالبان کے سفیروں اور کابل حکومت کے عہدیداروں کے درمیان بات چیت کی میزبانی کر رہا تھا۔ بات چیت میں افغانستان کے سابق نائب صدر یونس قانونی بھی موجود تھے۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے طالبان اور حکومت کے نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ”اپنے ملک کے مستقبل کے لیے آج کوئی سخت فیصلہ کریں۔” ظریف نے افغانستان میں امریکا کی ”ناکامی“ کی بھی نکتہ چینی کی۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا اور نیٹو فورسز نے کابل کے قریب واقع بگرام فوجی اڈے کو خالی کردیا تھا۔ یہ ایئر بیس طالبان مخالف سرگرمیوں میں کمانڈ سینٹر کے طورپر کام کرتا تھا۔ امریکی اور نیٹو فورسز کے چلے جانے کی وجہ سے افغان حکومتی فورسیز کو فضائی مدد بڑی حد تک کم ہوگئی ہے۔
امریکا نے گزشتہ روز کہا تھا کہ افغانستان سے اس کی افواج کا تقریباً 90فیصد انخلاء مکمل ہوچکا ہے۔ نیٹو کے بیشتر فوجی بھی اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ بیس برس قبل سن 2001میں امریکا نے افغانستان پر فوجی کارروائی کرکے طالبان حکومت کو معزول کردیا تھا۔ امریکا نے طالبان پر نیویارک میں نائن الیون حملوں کے ملزم القاعدہ کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا تھا۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق تہران کو یہ خوف ہے کہ افغانستان میں افراتفری اور خانہ جنگی کی صورت میں مہاجرین کی بڑی تعداد پناہ لینے کے لیے ایران کا رخ کر سکتی ہے۔ ایران میں پہلے سے ہی ہزاروں افغان پناہ گزین موجود ہیں۔
افغانستان امور کے ماہر نشنک موتوانی نے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان نے قلعہ نو پر قبضہ کرلیا تو یہ اسٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ”اس سے افغان فورسیز نفسیاتی دباو میں آجائیں کے۔ ”
افغان وزارت دفاع کے عہدیداروں نے حالانکہ طالبان کے حملوں سے بڑے شہروں، اہم شاہراہوں اور سرحدی قصبوں کو محفوظ رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔