امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ 31 اگست کو افغانستان میں امریکا کا فوجی مشن ختم ہو جائے گا۔
انھوں نے جمعرات کو ایک نشری تقریر میں کہا ہے کہ’’ہم افغانستان میں قوم کی تعمیر کےلیے نہیں گئے تھے۔اب افغان لیڈروں کو مل بیٹھنا ہوگا او وہ باہم مل کر مستقبل کی جانب بڑھیں۔‘‘
جوبائیڈن نے اس تقریر میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے پر روشنی ڈالی ہے اور اس کا حالیہ ہفتوں کے دوران میں جنگ زدہ ملک کے مختلف علاقوں میں طالبان کی تیز رفتار جنگی پیش قدمی کے باوجود دفاع کیا ہے۔
انھوں نے افغانستان میں امریکا کے فوجی مشن میں توسیع کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے اور ایسی آوازیں بلند کرنے والوں کو مخاطب ہوکر کہا کہ ’’آپ اور کتنے ہزار امریکی بیٹیوں اور بیٹوں کو خطرے سے دوچار کریں گے۔میں امریکیوں کی ایک اور نسل کو جنگ کے لیے افغانستان میں نہیں بھیجوں گا جبکہ کسی مختلف نتیجہ کے حاصل ہونے کی کوئی معقول توقع بھی نہیں ہے۔‘‘
جوبائیڈن نے کہا کہ ’’انھوں نے طالبان پر بھروسا نہیں کیا تھا بلکہ افغان فوج کی صلاحیت پراعتماد کیا تھا کہ وہ حکومت کا دفاع کرے گی۔‘‘
امریکی صدر نے اپنا یہ تجزیہ پیش کیا کہ امریکا کے انخلا کے بعد افغانستان میں کسی ایک حکومت کے کنٹرول کا بہت کم امکان ہے۔انھوں نے افغان حکومت پر زوردیا کہ وہ طالبان کے ساتھ کوئی ڈیل طے کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ’’اب کہ افغانستان میں امریکا کی جنگ کا خاتمہ ہورہا ہے تو یہ مشن کی تکمیل کا کوئی لمحہ نہیں ہے بلکہ مشن تو تب مکمل ہوا تھا جب ہم نے اسامہ بن لادن کو جالیا تھا اور دنیا کے اس حصے سے اب دہشت گردی سر نہیں اٹھا نہیں رہی ہے۔‘‘
ان کی اس تقریر سے قبل وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کے عہدے دار پہلے ہی یہ پیشین گوئی کرتے چلے آرہے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوگا اور افراتفری پیدا ہوگی۔
ترجمان نے کہا کہ ’’افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کو طول دیا جاتا تو پھر ان پر حملوں میں بھی شدت آسکتی تھی جبکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مئی 2021ء تک انخلا پر اتفاق کرچکے تھے۔‘‘
قبل ازیں پینٹاگان نے اسی ہفتے بتایا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا 90 فی صد سے زیادہ انخلا مکمل ہوچکا ہے۔امریکا کی مرکزی کمان کے مطابق جنگ زدہ ملک سے فوجیوں اور ان کے زیراستعمال سازوسامان کو واپس امریکا یا دوسرے ممالک میں منتقل کیا جارہا ہے۔
افغانستان سے سی 130 مال بردار طیاروں کی 984 پروازوں کے ذریعے فوجی سازوسامان بیرون ملک منتقل کیا جاچکا ہے۔ ان میں سے 17074 فوجی آلات ٹھکانے لگانے کے لیے محکمہ دفاع کی ڈیفنس لاجیسٹکس ایجنسی کے حوالے کیے گئے ہیں اور امریکا نے اپنے زیراستعمال سات فوجی اڈوں کو سرکاری طور پرافغان وزارت دفاع کے حوالے کردیا ہے۔
صدر جوبائیڈن کے اعلان کے مطابق افغانستان سے امریکی اورنیٹو فوج کے انخلا کا یکم مئی کو آغاز ہوا تھا۔ تب افغانستان میں امریکا کے ڈھائی سے ساڑھے تین ہزارفوجی اور نیٹو کے قریباً سات ہزار فوجی موجود تھے۔اب ان میں سے بہت تھوڑی تعداد افغانستان میں رہ گئی ہے۔
امریکی فوج نے اپنا بہت سا سامان افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا ہے اوربگرام کے ہوائی اڈے اوردوسرے مقامات پر بہت سے فوجی سازوسامان اورآلات کو ناکارہ کرکے ایسے ہی پھینک دیا ہے۔براؤن یونیورسٹی کے جنگ کی لاگت منصوبہ کے مطابق امریکا نے افغانستان میں گذشتہ دو عشروں کے دوران میں 20 کھرب ڈالر جھونک دیے ہیں۔
واضح رہے کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے اپریل میں افغانستان میں موجود باقی ماندہ فوج کا انخلا 11ستمبر2021ء تک مؤخرکرنے کا اعلان کیا تھا۔افغان طالبان اورسابق ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان فروری2020ء میں طے شدہ سمجھوتے کے مطابق رواں سال یکم مئی تک جنگ زدہ ملک سے امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہونا تھا۔