جنیوا (اصل میڈیا ڈیسک) ایک امریکی سفیر کے مطابق چین بہت ہی جلد زیر آب ڈرون اور جوہری توانائی سے چلنے والے میزائلوں جیسے پر اسرار ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکتا ہے۔
جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ پر مہارت رکھنے والے ایک امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ چین کی ایٹمی ہتھیاروں کے جدید پروگرام پر نظر ہے جس سے موجودہ، ”عالمی اسٹریٹیجک استحکام درہم برہم ہو سکتا ہے۔”
جنیوا میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق امریکی سفیر رابرٹ وؤڈ کا کہنا تھا کہ زیر آب ڈرون اور جوہری توانائی سے مار کرنے والے میزائل جیسے ”پراسرار جوہری ہتھیار” بہت ہی جلد چینی فوج کا حصہ ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیٹیلائیٹ سے حاصل تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ چین شمال مغربی شہر یومین کے پاس ایک صحرا میں میزائلوں کو محفوظ طریقے سے رکھنے کے لیے 119 سیلوس (زیر زمین گودام یا گڈھے) تعمیر کر رہا ہے۔ ان کا مزید تھا کہ یہ زیر زمین گودام بالکل اسی نوعیت کے ہیں جس میں اس نے موجودہ ایٹمی ہتھیار محفوظ کر رکھے ہیں اور یہ کافی تشویش ناک بات ہے۔
چین جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے جوہری ہتھیار اپ گریڈ کرنے میں مصروف ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر یہ ہتھیار امریکی اہداف کو بھی نشانہ بنا سکیں۔ گزشتہ برس پینٹاگون نے جو اندازہ لگایا تھا اس کے مطابق چین کے پاس پہلے سے ہی 200 سے زیادہ جوہری ہتھیار موجود ہیں اور آئندہ ایک عشرے کے دوران وہ اس تعداد کو دوگنا کرنا چاہتا ہے۔
رابرٹ ووڈ کا کہنا تھا، ”چین اس مقام پر سو برس قبل نہیں تھا، اور وہ جوہری توانائی سے چلنے والے ویسے ہی ایٹمی پروگرام کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہے جس پر روس کام کرتا رہا ہے۔” روس امریکی بیلیسٹک ہتھیاروں سے دفاع کے لیے نئے دفاعی طریقوں پر غور کر رہا ہے اور رابرٹ وؤڈ کو شبہ ہے کہ چین بھی اب اسی راستے پر گامزن ہے۔
رابرٹ وؤڈ کی دلیل یہ ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے روس اور امریکا کے درمیان تو پہلے سے ایک فریم ورک موجود ہے جبکہ چین کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ روس اور امریکا کے پاس تقریباً گیارہ ہزار جوہری ہتھیار ہیں، جو دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔
رابرٹ وؤڈ کا کہنا ہے، ”جب تک چین اس معاملے پر امریکا کے ساتھ دو طرفہ میٹنگ نہیں کرتا اس وقت اسلحوں کی تباہ کن دوڑ کا خطرہ بڑھتا ہی رہے گا اور اس سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہو گا۔”
ان کا کہنا تھا کہ گرچہ چین اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ وہ دفاعی صلاحیت سے لیس، ”ایک ذمہ دار جوہری طاقت ہے۔ لیکن ہم جب چین کو وہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جو وہ کر رہا ہے تو یہ اس کے قول سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ” یہ سب کے مفاد میں ہے کہ جوہری طاقتیں ایک دوسرے سے جوہری خطرات کو کم کرنے اور بد انتظامی سے بچنے کے بارے میں براہ راست بات کریں۔”