بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی نے بھارت سے اپنا ایک وفد کشمیر بھیجنے کی اجازت دینے کو کہا تھا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان او آئی سی کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے یا اس کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے اپنے پلیٹ فارم کو پاکستان جیسے ’مفاد پرست‘ ممالک کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ بھارت نے یہ بیان کشمیر سے متعلق او آئی سی کے ایک مطالبے کے رد عمل میں دیا ہے۔
او آئی سی کے جنرل سکریٹری یوسف العثیمین نے اس ماہ کی پانچ تاریخ کو جدہ میں بھارتی سفارت کار اوصاف سعید سے ملاقات کی تھی اور اس میٹنگ کے بعد کشمیر کی موجودہ صورت کے بارے میں تنظیم اور پاکستان کا جو بیان سامنے آیا اسی کے رد عمل میں بھارت نے یہ بات کہی۔
اطلاعات کے مطابق او آئی سی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ تنظیم نے بھارت میں مسلمانوں کی صورت حال کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کی صورت حال پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم کے سکریٹری جنرل نے او آئی سی کی ایک قرارداد کے تحت بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو اپنا ایک وفد بھیجنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔
او آئی سی نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ممکن ہو تو بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک ملاقات کا اہتمام کیا جائے اور تنظیم اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بگچی نے اسی بیان کے رد عمل میں کہا، ’’ او آئی سی کو اس بات پر نظر رکھنی چاہیے کہ مفاد پرست قوتیں یکطرفہ اور متعصبانہ قراردادوں کے ذریعے بھارت کے داخلی امور میں مداخلت یا پھر اس کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے اپنے پلیٹ فارم کو استعمال نہ ہونے دے۔‘‘
بھارتی ترجمان ارندم بگچی نے بتایا کہ او آئی سی کے سکریٹری جنرل اور بھارتی سفارت کار کے درمیان جو ملاقات ہوئی اس کا اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم نے ہی مطالبہ کیا تھا۔ ان سے جب یہ سوال پوچھا گيا کہ او آئی سی کے اس بیان میں کیا پاکستان کا کوئی کردار ہو سکتا ہے، تو انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ان کا ذاتی مفاد کا اشارہ اسی کی جانب تھا۔
پاکستان نے یوسف العثیمین سے بھارتی سفیر کی میٹنگ کے بعد کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے 57 اسلامی ممالک پر مشتمل تنظیم کا یہی موقف ہے جس سے بھارت کو آگاہ کر دیا گيا ہے۔ بھارت کا دیرینہ موقف یہ ہے کہ کشمیر پر وہ کسی تیسرے فریق کی ثالثی پر راضی نہیں ہے۔
بھارت نے اس امید کے ساتھ تقریباً دو برس قبل کشمیر کی خصوصی حیثيت ختم کر دی تھی کہ اس کے ان اقدامات سے کشمیر سے علیحدگی پسندی کی تحریک اور شورس کو کچلنے میں مدد ملے گی۔ تاہم اس یکطرفہ اقدام کے دو برس بعد بھی حالات تشویش ناک ہیں۔
گزشتہ روز بھی ایک جھڑپ میں دو بھارتی فوجی اور چند عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے جبکہ کشمیر کے اب بھی سینکڑوں سماجی کارکن، سیاسی رہنما اور دانشور جیلوں میں ہیں اور وادی کشمیر میں ہر جانب سکیورٹی فورسز کا سخت پہرہ ہے۔
بیشتر علیحدگی پسند رہنما اور کارکن یا تو جیلوں میں ہیں یا پھر نظر بند ہیں جن کے میڈیا میں بیان تک نہیں آتے تھے۔ تاہم 9 جولائی جمعے کے روز پہلی بار دہلی کے ایک اخبار میں علیحدگی پسند رہنما میر واعظ کا ایک بیان شائع ہوا ہے۔
اس بیان میں جموں و کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت سمیت کئی دیگر اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گيا ہے کہ حریت قیادت خطے میں سبھی کی خوشحالی اور امن کی خواہاں ہے جو اسی صورت میں ممکن ہے جب مسئلہ کشمیر کو پر امن طریقے سے حل کر لیا جائے۔ ’’ یہ بات چيت بھارت پاکستان اور کشمیری عوام کے مابین ہونی چاہیے۔‘‘
بات چیت کے لیے اعتماد اور سازگار ماحول پہلی ضرورت ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کو فوری طور تر ڈیموگرافک تبدیلی کے تمام اقدامات اور ان تمام قوانین کو مسترد کرنے کی ضرور ت ہے جس سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے اختیارات کی حق تلفی ہوتی ہو۔ خاص طور پر اگست 2019 سے (حریت) چیئرمین میر واعظ عمر سمیت جیلوں اور گھروں میں نظر بند نوجوانوں اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کی ضرورت ہے۔
حریت کی جانب سے ایسا بیان کافی دنوں بعد ایک ایسی صورت حال میں سامنے آیا ہے جب سرحد پر جنگ بندی پر عمل کے سبب قدر امن کا ماحول ہے۔ حریت رہنماؤں نے بھی اس جنگ بندی کی حمایت کی تھی تاہم ان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے اثرات وادی کشمیر میں اب بھی ندارد ہیں۔