کیوبا میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے

Protest

Protest

کیوبا (اصل میڈیا ڈیسک) کیوبا میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران ضروری غذائی اشیا کے لیے طویل قطاروں اور اور ادویات کی قلت سے لوگ کافی ناراض ہیں۔ تاہم کیوبا کی حکومت نے مظاہروں پر اکسانے کا الزام امریکا پر عائد کیا ہے۔

کیوبا میں 11 جولائی اتوار کے روز ہوانا اور سینٹیاگو جیسے بڑے شہروں میں ہزاروں افراد حکومت مخالف مظاہروں کے لیے سڑکوں پر نکلے جونعرے لگارہے تھے کہ وہ موجودہ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت سے نجات چاہتے ہیں۔ مظاہرین آمریت مخالف اور، ”ہم آزادی چاہتے ہیں ” جیسے نعرے بھی لگا رہے تھے۔

کیوبا میں کورونا وائرس کی موجودہ صورت حال کے سبب لوگوں کو غذائی اشیا کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑا ہونے پر مجبور ہونا پڑا ہے جبکہ ضروری ادویات کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ ملک میں گزشتہ کچھ دنوں سے کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس کی وجہ سے اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

کیوبا کے صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ میگوئیل ڈیاز-کینیل بھی سینٹیاگو میں ہونے والے ایک مظاہرے میں پہنچے اور اس حوالے سے سوشل میڈیا میں جو ویڈیوز پوسٹ کیے گئے ہیں اس میں مظاہرین ان کے خلاف توہین آمیز باتیں کہہ رہے ہیں۔

کیوبا کے صدر نے امریکا پر اس افراتفری کو پھیلانے کی سازش کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے حکومت کے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ اس اشتعال انگیزی کا سامنا کریں۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم ملک کے انقلابیوں، تمام کمیونسٹوں، سے کہتے ہیں کہ جب بھی کہیں اس طرح کی اشتعال انگیزی برپا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ سڑکوں پر نکلیں اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں۔”

حکومت نے مظاہرین پر قابو پانے اور حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے ہیں اور بعض مقامات پر مظاہرین کے ساتھ سختی بھی کی گئی ہے۔ کچھ مظاہرین نعرہ لگا رہے تھے کہ ضروری ادویات کی قلت ہے اور، ”ہم خوف زدہ ہونے والے نہیں ہیں۔” مظاہرے کے دوران ایک فوٹوگرافر کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔

امریکا میں مقیم کیوبا کے شہریوں کا مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار
امریکا میں رہنے والے کیوبا کی اہم شخصیات نے مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ اس کے بعض حامیوں نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کی مدد سے حالات کے بارے بیداری مہم شروع کی اور بیرونی امداد کا بھی مطالبہ کیا۔

امریکی ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی امریکی کانگریس کی ایک رکن ماریہ ایلویرا سلازار نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”کیوبا کے لوگ آزادی کے مطالبے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ کاسترو کی ظالم حکومت اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف تشدد کا استعمال کر رہی تاکہ ان کو دبایا جا سکے۔”

وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کا کہنا تھا کہ وہ کیوبا میں اظہار رائے اور لوگوں کے جمع ہونے کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ ”’امریکا پر امن مظاہرین کے خلاف کسی بھی طرح کے تشدد کی سختی سے مخالفت کرتا ہے جو ان کا بنیادی حق ہے۔”

کیوبا کی وزارت خارجہ نے امریکا کی جانب سے ایسے مظاہروں کی مہم چلانے کے لیے امریکا پر نکتہ چینی کی ہے۔ وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ”اس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ملک میں مکمل افراتفری کا ماحول ہے جو اصل صورت حال کے بالکل برعکس ہے۔”

کیوبا میں فوجی حکومت کی معزولی کے بعد سے ہی سن 1959 سے کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ امریکا اور بعض دیگر ممالک کیوبا پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ امریکا نے انہیں الزامات کی بنیاد پر اس پر کئی طرح کی پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں۔