روندے کارکردگی نوں

School

School

تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس

فرانس کی چھ کروڑ کی آبادی میں جہاں ہر روز کرونا سے دو تین سو لوگ مر رہے تھے تو وہاں کے تعلیمی ادارے کھول دیئے گئے۔

اور ایک ہم پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی میں 40 سے 50 لوگوں کے مرنے پر دو سال سے تعلیمی نظام کو تہس نہس کر دیا گیا ۔ کاش اس تعلیمی منسٹر اور اس کے مشیروں کو اس ملک کے جھنڈے🇵🇰 کے ڈنڈے سے پیٹا 👊 جا سکتا اور اس وزیر کو اس بیرونی اجینڈے کی پیروی پر سزائے موت دلوائی جا سکتی۔

کیونکہ آج کی دنیا میں کسی بھی ملک کو تباہ کرنے کے لیئے اس پر بم گرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کی معیشت کو تباہ کر دو یا اس کے تعلیمی نظام کو برباد کر دو ۔ اور بلاشبہ آج کے حکمرانوں نے یہ دونوں کام اپنے بیرونی آقاوں کے ایجنڈے پر جی جان سے پورے کیئے ہیں۔

اس ملک کی وہ نسل انصافی حکومت نے تیار کر دی ہے جس کا پڑھائی لکھائی سے کوئی تعلق ہے نہ رغبت ۔ جو کتابیں اٹھانے کا نام لو تو ہتھیار اٹھانے کو تیار ہو چکی ہے ۔سکول کا نام لو تو “دھرنا دو ” کا قومی سبق دہراتی ہے۔

وہ نالائق ترین طلباء جو دو سال سے بنا امتحانات اور کتابیں کھولے اگلی جماعتوں میں بڑھائے جا چکے ہیں یہ کل کس کس عہدے تک پہنچ کر اس ملک کے جڑوں میں اور کیا کیا زہریلے ٹیکے لگائیں گے ہمارے اکثر بے حس لوگوں کو ابھی تک اس کا شعور ہی نہیں ہے ۔ گویا اندھے ہاتھ میں ڈرائیونگ لائسنس لیئے گاڑیاں چلانے کو تیار ہیں۔

اب انکی زد میں کون کب اور کیسے آئے گا یہ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے ۔ پاکستانی نئی نسل کو جاہل گنوار دیکھنے کا بھارتی ایجنڈا ہمارے تعلیمی وزراء نے جس تندہی سے پورا کیا ہے اس پر انہیں کڑی سزاوں کے بجائے مذید ترقیوں سے نوازنا چہ معنی دارد۔۔۔

یہ وہی لوگ ہیں جن کے گھروں میں لارڈ صاحب اور میم صاب پل رہے ہیں اور ہم بلڈی عوام اپنی عمر بھر کی پونجی ان کے انگریزی بولنے والے ملازمین پیدا کرنے میں صرف کر کر کے پاگل ہوئے جا رہے ہیں ۔ اپنی قومی زبان کو دیوار سے لگانے کے لیئے یہ خاص ٹولہ اپنے سر دھڑ کی بازی لگا چکا ہے ۔ لیکن فیصلہ عوام کو خود کرنا ہو گا ۔ اپنی زبان پڑھ کر علم حاصل کرنا ہے اپنی تہذیب اور افکار بچانے ہیں یا پھر انگریزی کی گرائمر سدھارتے سدھارتے دنیا سے رٹے بازی کی دوڑ لگاتے ہوئے اس جہان سے گزر جانا ہے۔ فیصلہ خود کیجئے۔

دنیا کی ترقی یافتہ اقوام نے سب سے پہلے اپنی زبانوں پر فخر کرنا سیکھا ۔ اسے رائج کیا اور دنیا فتح کر لی۔ مٹھی بھر یہودیوں نے اپنی اس زبان کو زندہ کر کے دکھا دیا جو بولنے والے بھی محض دس بارہ لوگ ہی بچے تھے۔ لیکن انہوں نے اسی زبان کو اپنا زریعہ تعلیم بنایا اور دنیا کو اپنی زبان کی اہمیت اور افادیت کا بین ثبوت فراہم کر دیا ۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو اپنے ان عزیزوں اور رشتہ داروں کی روشن مثال سے سبق حاصل نہیں کرنا چاہیئے؟

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس