افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغان حکومت کے ایک سینیئر افسر کے مطابق علاقے کے بزرگ قبائلی رہنماؤں کی کوششوں سے جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ جنگ بندی صوبہ بادغیس کے قلعہ نو علاقے میں ہوئی ہے۔
افغانستان میں حکومت کے ایک سینیئر افسر نے 15 جولائی جمعرات کے روز بتایا کہ مغربی صوبے بادغیس پر طالبان جنگجوؤں کی جانب سے مسلسل حملے جاری تھے تاہم اب ان کے ساتھ جنگ بندی پر بات چیت ہو گئی ہے۔
صوبے کے گورنر حسام الدین شمس نے اس حوالے سے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ”افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان آج صبح دس بجے سے جنگ بندی پر عمل شروع ہو گیا ہے۔ یہ جنگ بندی قبائلی رہنماؤں کی ثالثی کی وجہ سے ہو پائی ہے۔”
اطلاعات کے مطابق طالبان نے صوبے بادغیس کے دارالحکومت قلعہ نو کا محاصرہ کر لیا تھا اور اس پر قبضے کے لیے اندرون شہر لڑائی کے لیے حملہ کرنے والے تھے۔ تاہم اس خونریزی سے بچنے کے لیے مقامی قبائلی شخصیات نے کوششیں شروع کیں اور پھر وقتی طور پر لڑائی روک دی گئی۔
لیکن اس سلسلے میں طالبان کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ اس سے قبل اس طرح کی اطلاعات آ چکی تھیں کہ قلعہ نو کے آس پاس کے علاقوں پر طالبان نے اپنا کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور دارالحکومت پر چڑھائی کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں طالبان کے حوالے سے بعض خبروں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تاہم خونریزی سے بچنے کے لیے طالبان نے شہر پر حملہ نہیں کیا تاکہ بڑی تعداد میں شہریوں کو ہلاکت سے بچایا جا سکے۔
دو روز قبل طالبان نے بولدک کے پہاڑی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد پاکستان نے چمن کے سرحدی راستے کو بند کر دیا تھا۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے سلسلے کو جیسے جیسے تیزی سے پورا کرنے کا عمل شروع ہوا ویسے ہی طالبان عسکریت پسندوں نے بڑے پیمانے پر مختلف علاقوں کو اپنے قبضے میں لینا شروع کر دیا۔
پاکستان کی طرف جنوب مغربی سرحدی علاقے چمن کی سکیورٹی فورسز کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ بڑی تعداد میں افغان شہریوں کے ہجوم نے پاکستان میں داخل ہونا شروع کر دیا تھا اور زبردستی گیٹ کو عبور کرنے کی کوشش کی۔ اس کے رد عمل میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے بھی کارروائی کی۔
اسپین بولدک پر قبضہ حالیہ ہفتوں کے دوران سرحدی گزرگاہوں اور خشک بندرگاہوں پر طالبان حملے کی تسلسل کی کڑی ہے۔ آمدنی کے اس ذریعے کی ضرورت کابل کو تو ہے ہی تاہم طالبان لیڈر بھی اسے اپنی جیبیں بھرنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
اس دوران پاکستان نے 17 سے 19 جولائی کے درمیان تین روزہ افغان امن کانفرنس کی میزبانی کا اعلان کیا ہے۔ اس میں بعض افغان رہنماؤں کی شرکت کی امید ہے تاہم افغان حکومت امن بات چیت کے لیے اسلام آباد کے بجائے دوحہ کی طرف روانہ ہو چکی ہے۔
قطر میں گزشتہ برس سے بات چیت کا آغاز ہوا تھا تاہم ابھی تک اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا ہے اور طالبان جس تیزی سے علاقوں پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں اس سے تو یہ لگتا ہے کہ بات چیت کے بجائے طالبان کابل کو طاقت کے زور پر فتح کر لیں گے۔