بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) یہ کہانی شروع ہوتی ہے فروری سے، جب امریکی پوپ اسٹار ریحانا نے اپنی ایک ٹوئٹ میں بھارتی کسانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا اور مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
امریکی اسٹار ریحانا کی طرف سے ایک ہی ٹوئٹ کے بعد سوشل میڈیا بالخصوص مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھارتی کسانوں سے ہمدردی ظاہر کرنے غیر ملکیوں والوں کی قطار لگ گئی۔
ان صارفین نے ریحانا کے ساتھ یک زبان ہوتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے کسانوں کے مظاہروں سے نمٹنے کے طریقہ کار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اس واقعے نے بھارتی حکومت اور ٹوئٹر کے مابین پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کر دیا۔
نئی دہلی کے اصرار کے باوجود ابتدائی طور پر ٹوئٹر نے متنازعہ ٹوئٹس ڈیلیٹ نہ کیں اور مودی کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف بھی یہ کہہ کر کارروائی بھی نہیں کی کہ یہ آزادی رائے کا معاملہ ہے۔
تاہم بھارتی حکومت نے سینکڑوں تنقیدی ٹوئٹس کو بلاک کر دیا۔ بعدازاں ٹوئٹر نے بھارتی حکومت کے شدید اعتراض پر کچھ ٹوئٹس بلاک کر دیں جبکہ زیادہ تر پر سمجھوتہ نہ کیا۔
امریکی اسٹار ریحانا کی طرف سے بھارتی کسانوں سے ہمدردی ظاہر کرنے کے ٹوئٹ پر مودی حکومت میں غصہ پیدا ہوا
رواں برس فروری میں رونما ہونے والے ان واقعات کے بعد سے بھارتی حکومت اور ٹوئٹر کے تعلقات ابھی تک نارمل نہیں ہو سکیں ہیں۔
اسی دوران بھارتی حکومت نے انٹرنیٹ سے متعلق قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بالخصوص فیس بک اور ٹوئٹر کو براہ راست ملکی حکومت کے رحم و کرم پر لا کھڑا کیا۔
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ نفرت انگیزی، غلط معلومات اور جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر یہ ترامیم ناگزیر تھیں تاہم انسانی حقوق کے کارکنان کو پریشانی لاحق ہے کہ یہ نئے قوانین کہیں سنسر شپ کا موجب بنتے ہوئے ناقدین اور حکومتی منحرفین کی آوازیں مکمل طور دبا ہی نہ دیں۔
یہ امر اہم ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما نریندر مودی کی طرف سے سن دو ہزار چودہ میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے ڈیجیٹل فریڈم سکڑتا جا رہا ہے۔
بھارتی پولیس نے ملک میں واقع ٹوئٹر کے دفاتر میں چھاپے مارے اور انڈیا میں ٹوئٹر کے چیف منیش مہیش واڑی پر الزامات عائد کیے کہ وہ نسلی منافرت اور بھارتیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق بھارتی حکومت اس طرح سے ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں ہے۔
لامینار گلوبل ایںڈ ٹوئٹر کے شریک بانی راحیل خورشید کا خیال ہے کہ بھارت کا منصوبہ ہے کہ اس ملک میں بھی انٹر نیٹ پر اتنی پابندیاں لگا دی جائیں، جیسا کی چین میں ہے۔
بھارت میں واقع پولیٹیکس، پالیسی اینڈ گورنمنٹ نامی تھنک ٹینک کے سابق سربراہ خورشید نے مزید کہا کہ مستقبل میں بھارتی انٹر نیٹ کیسا ہو گا؟ اس بات کا تعین اس وقت ٹوئٹر کے ساتھ ہونے والے سلوک سے لگایا جا سکتا ہے۔
ایک بلین نفوس سے زیادہ آبادی والا ملک بھارت انٹر نیٹ بزنس کے لیے بھی ایک سونے کی چڑیا قرار دیا جاتا ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق سن دو ہزار پچیس تک نو سو ملین افراد کو انٹر نیٹ کی سہولت دستیاب ہو گی۔
سبھی انٹر نیٹ کمپنیوں کو علم ہے کہ بھارت اس حوالے سے ایک بڑی منڈی ہے اور ہر کمپنی بھارت میں سرمایا کاری کرنے کے علاوہ صارفین کو خدمات پہنچانے کے لیے بے قرار ہے۔
مودی حکومت کی طرف سے متعارف کرائے گئے نئے قوانین ان کمپنیوں کے لیے باعث تشویش ہیں۔ فروری میں نافذ ہونے والے ان قوانین کا اطلاق نہ صرف سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر ہوتا ہے بلکہ تمام اسٹریمنگ پلیٹ فارمز اور ڈیجیٹل نیوز کی کمپنیاں بھی ممکنہ طور پر ان سے متاثر ہو سکتی ہیں۔
ان قوانین کی روشنی میں اگر بھارتی حکومت ان کمپنیوں کو کہے کہ کوئی مواد غیر قانونی ہے اور اسے اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا جائے تو ان کمپنیوں کے پاس اس حکومت کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
اس صورت میں انٹر نیٹ کمپنی کو چھتیس گھنٹوں میں مواد ہٹانا ہو گا ورنہ اس کے خلاف مجرمانہ نوعیت کا مقدمہ چلایا جائے گا۔
اب صارفین بھی ان کمپنیوں کو متنازعہ مواد اپنی ویب سائٹ سے ہٹانے کی درخواست کر سکیں گے۔ کمپنیوں کو اس بات کا پابند بھی بنا دیا گیا ہے کہ وہ ایسا سٹاف مقرر کریں، جو صارفین کی شکایات کو فوری جواب دینے کے قابل ہو اور ساتھ ہی حکومتی درخواستوں کو فوری نوٹس لے۔
انٹر نیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آپار گُپتا کا کہنا ہے کہ ان نئے قواعد وضوابط کے تحت انٹر نیٹ پلیٹ فارمز انتہائی آسان ہو جائے گی اور اس طرح وہ سیلف سنسر شپ کا شکار ہو جائیں گے اور حکومتی خوف کی وجہ سے آزادی رائے و صحافت سے لطف اندوز ہونے میں ناکام ہو جااے پیئیں گے۔