شام (اصل میڈیا ڈیسک) خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے صدر بشار الاسد نے چوتھی مدت کے لیے اپنے منصب کا حلف اٹھا لیا ہے۔ انہوں نے ایسے وقت میں حلف اٹھایا ہے جب ان کے ملک کی معاشی مشکلات شدید سے شدید تر ہو رہی ہیں۔
جنگ زدہ ملک شام میں صدارتی انتخابات کا انعقاد رواں برس مئی میں ہوا تھا۔ اس الیکشن میں بشار الاسد بھاری اکثریت (پچانوے فیصد سے زائد ووٹ) سے ایک مرتبہ پھر صدر منتخب ہوئے تھے۔
ہفتہ 17 جولائی کو انہوں نے چوتھی مدت کے لیے حلف اٹھا لیا ہے۔ حلف برداری کی تقریب دمشق میں واقع صدارتی محل میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں حکومت نواز سیاسی عمائدین، مذہبی اکابرین، اراکینِ پارلیمان، فوجی افسران اور اعلیٰ سرکاری ملازمین نے شرکت کی۔
امریکا سمیت مغربی اقوام اور شام کی اپوزیشن تنظیموں کے سبھی دھڑوں نے صدارتی انتخابی عمل کو غیر قانونی اور فراڈ قرار دیا تھا۔ مغربی ممالک اس انتخابی عمل کو اقوام متحدہ کی منطور شدہ قراردادوں کے منافی خیال کرتے ہیں۔ یہ قراردادیں شامی تنازعے کے حل سے متعلق ہیں۔
شام کے سابق صدر حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد سن 2000 سے مسندِ صدارت پر براجمان ہیں۔ ان کی دوسری اور تیسری مدت صدارت میں اس عرب ملک کو شدید خانہ جنگی کا سامنا رہا۔
اس خانہ جنگی کے دوران اسد اور ان کی حکومت پر مغربی اقوام کی بہت ساری پابندیوں کا نفاذ کیا گیا جو اب بھی برقرار ہیں۔ ان پابندیوں کے باوجود اسد کو روس اور ایران کی مالی و عسکری حمایت و امداد حاصل رہی۔ مغربی مبصرین کے مطابق ان دونوں حلیفوں کی مدد سے اسد اپنا اقتدار ابھی تک سنبھالے ہوئے ہیں۔
بشار الاسد کے دور صدارت میں خانہ جنگی کے علاوہ اقتصادی اور سماجی مسائل بھی سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے اس ملک کی کرنسی پاؤنڈ ہے اور یہ مسلسل زوال پذیر ہے۔
مجموعی شرح نمو میں گرواٹ پیدا ہونے سے معیشت قریب قریب جمود کا شکار ہو چکی ہے۔ اجناس اور دوسرا سامانِ خوراک بتدریج کمیاب ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کی اقتصادی مشکلات مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ بنیادی ضروریات زندگی بے پناہ حد تک مہنگی ہو چکی ہیں۔
بازاروں میں عام اشیا کی قیمتیں بھی لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق شام میں 80 فیصد سے زائد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
بظاہر خانہ جنگی قریب قریب ختم ہو چکی ہے لیکن سارے ملک کے اہم اور مختلف مقامات پر حکومتی کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے ملکی و غیر ملکی فوجی دستے اور حکومت کی حامی ملیشیا کے اہلکار متعین ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ خانہ جنگی کی وجہ سے مجموعی آبادی کا نصف داخلی نقل مکانی اختیار کر چکا ہے۔ ہزاروں شامی مہاجرین یورپی ممالک میں بھی مہاجرت کی زندگی بسر کر ہے ہیں۔ شام میں خانہ جنگی بشار الاسد کی دوسری مدت کے دوران سن 2011 میں شروع ہوئی تھی۔