سنگاپور : دنیا کے سب سے بڑے تیرتے ہوئے شمسی توانائی کے فارم کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔ تقریبا پینتالیس فٹ بال کے میدانوں کے برابر رقبے ہر محیط اس شمسی فارم کا مقصد ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی لانا ہے۔
شمسی توانائی کے حوالے سے یہ اس ملک کا اب تک کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہے۔ شمسی توانائی کا یہ فارم ایک لاکھ بائیس ہزار پینلز پر مشتمل ہے اور یہ پانچ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کو چلانے کے لیے بجلی پیدا کرے گا۔
سنگاپور کا شمار ایشیاء میں سب سے بڑے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے ۔ لیکن زمین کی قلت اس ملک میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو بڑھانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خوشحال مالیاتی مرکز نے اپنے ساحل اور آبی ذخائر میں پودے لگانے کا منصوبہ بھی شروع کر رکھا ہے جبکہ یہ ملک سن 2025 تک اپنی شمسی توانائی کی پیداوار میں چار گنا اضافہ کرنا چاہتا ہے۔
سینگاپور اس نئے فارم کے ذریعے 60 میگا واٹ تک بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ سیمبکورپ انڈسٹریز اور سنگاپور کی نیشنل واٹر ایجنسی (پی یو بی) کے مطابق اس شمسی فارم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج اتنا کم ہو گا، جیسے کہ سڑکوں پر سے سات ہزار کاریں ہٹا دی جائیں۔
حکومت کی معاونت سے اس فارم کی تعمیر سیمبکورپ انڈسٹریز کی طرف سے کی گئی ہے اور یہ فارم پینتالیس ہیکٹر (110 ایکڑ) پر محیط ہے۔ سنگاپور کی واٹر ایجنسی کے چیف ایگزیکٹو نیگ جوہے کا اس موقع پر کہنا تھا، ”شمسی توانائی بھر پور، صاف اور سبز ہے، ضرر رساں گیسوں اور سنگاپور کے کاربن فٹ پرنٹ میں کمی کے لیے اس کی حیثیت کلیدی ہے۔‘‘
سنگاپور نے آبنائے جوہر میں بھی ایک شمسی فارم بنایا ہے، جو جزیرہ ریاست کو ملائشیا سے الگ کرتی ہے۔
سینگاپور حکومت نے فروری میں ایک ”گرین پلان‘‘ کا افتتاح کیا تھا، جس کے تحت شجرکاری میں اضافہ کرنا، الیکٹرک کاروں کے استعمال کی حوصلہ افزائی، کچرے کو کم کرنا اور الیکٹرک کاروں کے لیے مزید چارجنگ پوائنٹس کا قیام شامل ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ سنگاپور دوسری ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں کافی پیچھے ہے اور اسے اپنے ماحولیاتی اہداف حاصل کرنے میں ابھی کافی دیر لگے گی۔