ماہ ذی الحجہ مبارک اور متبرک ہمارے اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس کی نویں تاریخ کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ تقریب حج اداکی جاتی ہے۔اور میدانِ عرفات میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع ہو کرحج ادا کرتے ہیں۔اور اپنے گناہوں کی بخشش و مغفرت کا سوال کرتے ہیں اور اس مہینہ کی دسویں تاریخ کو عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کرکے بارگاہِ الٰہی میں قربانی کر کے محبت الٰہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی چیز اس کے راستہ میں خرچ کرنا قربانی کہلاتا ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ اس چیز کے خرچ کرنے کا مقصد صرف اور صرف رضائے الہی ہو نام و نمود و نمائش اور ریا کا دل میں خیال تک نہ ہو اور اپنی عزیز تر اشیاء کو بارگاہِ الٰہی میں قربان کر ڈالے۔قربانی ایک مہتم بالشان عبادت ہے۔
سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تک چلی آرہی ہے، ہر مذہب و ملت میں اس عظیم عبادت پر عمل رہا ہے، چنانچہ رب کائنات کا ارشاد ہے کہ ہر امت کیلئے ہم نے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کیا ہے،قربانی کا عمل اگرچہ ہر مذہب میں رہا ہے، لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بحکم الٰہی اپنے معصوم لختِ جگر کو راہِ حق میں اس درد و خلوص سے قربان و جان نثار کیا، کہ اس قربانی کی نسبت ان کی طرف کردی گئی اور اسے سنت ابراہیمی کہا جانے لگا۔ حضرت زین العرب فرماتے ہیں عید الاضحٰی کے دن افضل عبادت قربانی کے جانور کا خون بہانا ہے، اور یہ جانور اپنے پورے وجود کے ساتھ قیامت کے دن حاضر ہوگا، اور اس کا کوئی عضو کم نہ ہوگا، جیسا کہ دنیا میں وہ اپنے مکمل اعضاء کے ساتھ تھا، تاکہ اس کے ہر عضو کے بدلہ اجر وثواب ہو، اور وہ پل صراط پر اس کی سواری بن جائے، اور ہر دن کسی عبادت کے ساتھ مختص ہے، اور قربانی کا دن بھی ایک عبادت کے ساتھ خاص ہے جس کو سیدنا خلیل اللہ نے انجام دیا ہے۔
یعنی قربانی کرنا اور تکبیر کہنا، اور اگر انسان کے فدیے میں جانوروں کی قربانی سے کوئی چیز زیادہ فضیلت والی ہوتی، تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ ذبح غنم سے نہ ادا کیا جاتا۔ ایک موقعہ پر محبوب کبریا سے اصحاب رسول اللہ نے دریافت کیا، اے اللہ کے رسول! یہ قربانی کیا چیز ہے؟سرکار دوعالم ۖنے ارشاد فرمایا، تمہارے باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، پھر صحابہ کرام نے استفسار کیا، اے اللہ کے پاک رسول! اس میں ہمارے لئے کیا ہے؟ آپ نے جوابا ارشاد فرمایا، اس کے ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ہے، انھوں نے عرض کیا، بھیڑ اور دنبے میں ہمارے لئے کیا ثواب ہے.؟ آپ نے ارشاد فرمایا :اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انسان فطری طور پر اپنے آباء اجداد کی رسوم ورواج پر پوری پابندی کے ساتھ عمل کرتا ہے، بلکہ آسانی سے اسے چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔دیکھئے کفار مکہ کس قدر مضبوطی کے ساتھ اپنے آبائی رسوم پر گامزن تھے، کہ حق کے واضح ہو چکنے کے بعد بھی وہ اپنے آبائی دین سے دست کش نہ ہو سکے، اثبات فضیلت اس امر میں غور کرنا چاہیے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کیا ہے۔
امت مسلمہ کا شاید کوئی ایسا فرد ہو ، جو اس سے ناواقف ہو کہ ان کی سنت ذبح ولد ہے، اسی وجہ سے اس قربانی کو سنت ابراہیمی کے ساتھ موسوم کیا جاتا ہے، اور دوسری قابل غور بات یہ ہے، کہ انہوں نے فعل ذبح پر پختہ عزم کرلیا تھا بلکہ اس معصوم کلی کو ذبح کرنے کی پوری کوشش کی اور ان کے گلے پر چھری تک چلائی، تاہم ذبح کا اثر مرتب نہ ہوا، اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کا گلا نہ کاٹا جا سکا، اسلئے کہ خلیل اللہ کو حکم تھا،( اذبح) ذبح کرڈالو، لیکن مسبب الاسباب کی طرف سے چھری کو کچھ اور ہی حکم تھا، کہ خبردار تمہیں اسماعیل کے گلا کاٹنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے، گویا چھری بزبانِ حال کہہ رہی تھی، کہ ابراہیم پروردگار کا حکم جس قدر آپ کیلئے قابل احترام اور لائقِ تعظیم ہے یقین جانیں، میرے پیدا کرنے والے کا فرمان میرے لئے بھی اتنا ہی موجب اعزاز ہے، بس آپ کو جو حکم ملا اس کی بجاآوری کریں اور مجھے جس حکم کا مکلف بنایا گیا ہے میں اس کی تعمیل کرتی ہوں۔لہذا اس مختصر سی تفصیل سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے، کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ذبح ولد ہے.غور کا مقام یہ ہے کہ آقائے نامدار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح حیوان کو سنت ابراہیمی قرار دیا ہے حالانکہ سیدنا خلیل اللہ نے اپنے لخت جگر کی قربانی دی تھی، اس کے باوجود آقا مدنی کریم کا یہ فرمان کہ یہ سنت ابراہیمی ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ یہ فرمارہے ہیں کہ گو دونوں عمل میں مغائرت سہی تاہم ان دونوں کے اجر وثواب میں اتحاد ویکسانیت ہے۔
قربانی کی یہ کیسی عظیم فضیلت و شرف ہے، ہم ذبح تو جانور کریں، اور اجر وثواب ہمیں اپنی صلبی اولاد قربان کرنے کا دیا جائے۔ قربانی کی ایک عجیب فضیلت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اس عبادت سے دنیا میں بھی خوب فیضیاب ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ قربانی کے گوشت کی ایک بوٹی وہ کسی کو نہ دے، تو بھی کوئی حرج نہیں اور اس سے اس کی عبادت کی ادائیگی میں کوئی نقص نہیں آئیگا، انفاق مالی میں کوئی اس شان کی عبادت نہیں ہے، بلکہ تمام انفاقات مالیہ میں جب تک بندہ اپنی ملکیت سے اسے علیحدہ نہیں کرتا، اور صرف نہیں کردیتا، اس وقت تک اسکی ادائیگی ممکن نہیں ہے ۔اس سے یہ امر بھی واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ عمل کس قدر محبوب ہے کہ اس میں اس قدر سہولتیں پیدا فرمادی، کہ ہر کوئی بآسانی اسے ادا کرے، اور اس کی اخروی فضیلتوں میں ایک نمایاں شرف یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ ”یہ قربانی کے جانور پل صراط پر تمہاری سواری ہوگی”اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو اس عظیم عبادت کی زیادہ سے زیادہ توفیق مرحمت فرمائے۔آمین۔ذی الحجہ کے پہلے نو دنوں میں روزہ رکھنے کی بہت بڑی فضیلت ہے۔جو شخص ان ایام میں روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی اسے دس انعامات سے نوازتا ہے۔(1) اس کی عمر میں برکت فرماتا ہے۔(2) اس کے مال میں اضافہ کرتا ہے۔(3) اس کے اہل وعیال کو ہر قسم کی مصیبتوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ (4)اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(5) اس کی نیکیوں کودو گنا کرتا ہے۔(6) اس کے لیے موت کے سکرات آسان کر دیتا ہے۔(7 )اس کی قبرکی تاریکیوں کے لیے نور عطا فرماتا ہے۔(8 )اس کے نیکیوں والے پلڑے کو وزنی بنا دیتا ہے۔(9) اور جہنم میں گرنے سے بچا لیتا ہے۔(10) اسے بلند درجات کی طرف چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذی الحجہ کے دس دنوں میں جو عمل کیا جاتا ہے وہ باقی تمام اعمال کیے جانے والے عمل سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں زیادہ محبوب ہے۔آپ ۖ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی وہ عمل زیادہ پسندیدہ ہے تو آپ نے فرمایا۔ہاں! البتہ وہ آدمی جو اپنا مال لے کر جہاد کے لئے نکلے اور واپس نہ ہو یہاں تک کہ وہ شہادت کا مرتبہ حاصل کر لے۔تو گو یا اس کا درجہ اس سے بھی بلند ہے۔حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ قربانی کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ جو شخص قربانی خریدنے کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو اسے ہر قدم کے بدلے دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ اور اس کے نامہ اعمال سے دس گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں اور اس کے دس درجے بلند کیئے جاتے ہیں۔ اور جب وہ اس کے خریدنے کے متعلق جانور کے مالک سے گفتگو کرتا ہے تو اس کے کلام اللہ تعالی کی تسبیح بن جاتی ہے۔اور جب وہ اس کی قیمت نقد ادا کرتا ہے تو اسے ہر درہم کے بدلے سات سو نیکی حاصل ہو تی ہے اور جب اس کو ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹاتا ہے تو وہ سطح زمین سے لے کر ساتویں آسمان تک تمام مخلوق اس کے لئے دعائے مغفرت کرتی ہے۔اور جب اس کا خون زمین پر گرتا ہے تو خون کا ہر ہر قطرہ سے اللہ تعالی دس دس فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اس کے لیے تا قیامت دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیںاور جب وہ اس کا گوشت تقسیم کرتا ہے تو گوشت کی ہر بوٹی کے بدلے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔